ہوم << عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار - حمیراعلیم

عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار - حمیراعلیم

ہر سال بجٹ سے چند روز پہلے حکومت معاشی کفایت شعاری پر لیکچر شروع کر دیتی ہے۔ بجلی اور گیس مہنگی کرتی ہے۔سرکاری ملازمین کی پنشن میں کمی لاتی ہے۔ لیکن چیف ایگزیکٹیوز کے عہدوں میں اضافے کرتی ہے۔ عوام اس تضاد کو مزدور اور حکمران طبقے کے لیے الگ معیارسمجھتے ہیں۔

1فروری 2025 کو اشاعت ہونے والی ڈان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنانس کمیٹی نے کہا ہے کہ سات سال سے پارلیمنٹرینز کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا ۔بزنس ریکارڈرکی رپورٹ بھی واضح کرتی ہے کہ ممبران کی تنخواہ سات سال کی طویل مدت سے ایک ہی ہے ۔نو سال کے بجائے یہ سات سال کی مدت ہے۔
حکومت نے کافی عرصے کے بعد ایم این ایز اور سینیٹرز کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔حالیہ پارلیمانی اجلاس اور قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، ایم این ایز (ارکان پارلیمنٹ) اور سینیٹرز کی بنیادی تنخواہ یکم جنوری 2025 سے بڑھاکر 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ کردی گئی ہے۔ اس اضافہ سے پہلے ایم این ایز کی تنخواہ 2 لاکھ 18 ہزار روپے ماہانہ تھی، جو تقریباً 140فیصد یا 300 فیصد مجموعی اضافہ کے برابر ہے ۔ چونکہ آخری مرتبہ اُن کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ 2015-2016 میں ہوا تھا۔ فنانس کمیٹی، جس کی سربراہی اسپیکر ایاز صادق کر رہے ہیں، نے وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور مراعات کے برابر ایم این ایز اور سینیٹرز کو رکھنے کی سفارش کی تھی ۔قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ایم این ایز کو وفاقی سیکرٹریز جیسی مراعات فراہم کی جائیں گی ۔

تنخواہ کے علاوہ کون سی مراعات بڑھائی گئی ہیں ،ہاؤس الاؤنس،مکینیکل گاڑی اور ڈرائیور،ماہانہ الیکٹرک/گیس/فون الاؤنسز،سفری اخراجات ٹی اے ڈی اے۔
بی بی سی اردو کے مطابق تنخواہوں میں یہ اضافہ یکم جنوری 2025 سے لاگو ہو گا ۔
سرکاری موقف میں اس اضافے کے یہ دلائل دئیے گئے ہیں:
1. اعلیٰ پوسٹ کی ضروریات
مالی کمیٹی اور وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایم این ایز اور سینیٹرز کے دائرہ کار اور ذمہ داریاں وفاقی سیکرٹریز کے برابر ہیں، لہٰذا تنخواہ کا فرق ختم کرنا چاہیے ۔
2. تنخواہوں کا عدم اضافہ
گزشتہ نو سال میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے تنخواہوں کا پیمانہ 2015 کی قیمتوں پر مستحکم رہا۔ اس عرصے میں مہنگائی اور معاشی دباؤ میں اضافہ ہوااس لیے تازہ اضافہ ناگزیر تھا ۔
3. مقابلتی بنیاد
وفاقی حکام کا کہنا ہے کہ ایم این ایز کی تنخواہ اب بھی گریڈ 22 کے حکام (وفاقی سیکرٹریز) سے کم ہے۔ اس لیے ان کی تنخواہ اُس معیار کے قریب لائی گئی ہے ۔
4. اجلاسوں میں اتفاق رائے
فنانس کمیٹی نے اس مد میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان سب کی اتفاقِ رائے سے یہ بل منظور کیا ۔
5 صوبائی اسمبلیوں میں اضافہ: ایک مثال
سنہ 2024 دسمبر میں پنجاب اسمبلی نے بھی تنخواہوں میں بے مثال اضافہ کیا:
ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار سے 4 لاکھ روپے ماہانہ کی گئی۔وزیر کی تنخواہ 1 لاکھ سے 920ہزار روپے؛
اسپیکر: 125 ہزار سے 950 ہزار؛
ڈپٹی اسپیکر: 120 ہزار سے 775ہزار؛
پارلیمانی سیکرٹری: 83 ہزار سے 451 ہزار؛وزرائے اعلیٰ کے مشیروں و معاونین: 1 لاکھ سے 665ہزار روپے ۔
یہ تقریباً 400 فیصد اضافہ ہے، جب کہ اس وقت عوامی حلقوں میں مہنگائی کے باعث عوام پریشان تھے ۔

حکومت نے وزراء اور پارلیمانی ارکان کے لیے 159 سے 188% تک غیر معمولی تنخواہوں کا اعلان کیا۔ یہ تضاد صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ کسی جامع قومی بجٹ میں شامل نہیں تھا. فوری عملدرآمد کے ساتھ کیا گیا؛ کسی کفایت شعاری پالیسی کے تابع نہیں تھا۔ 2024–25 کے صوبائی بجٹ میں ( خیبر پختونخوا) سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 10% اضافہ کیا گیا ۔فیڈرل سطح پر بھی بجٹ 2022–23 میں ”حکومتی ملازمین کی تنخواہ 15% بڑھائی گئیں" جیسا اعلان شامل تھا ۔ تاہم عوام کی سطح پر، ریڈڈیٹ اور ماہرین کی رپورٹوں سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ چند فیصدی اضافہ مہنگائی کی شرح کا محض تسلسل نہیں روک پاتا۔

عام طور پر حکومتی ملازمین کی تنخواہوں میں 20-30% اضافے سالانہ یا دو سال میں ہوتے ہیں، دسمبر میں اور بجٹ اعلانات میں (مثلاً 2017-18 میں 10% اضافہ عمل میں آیا) ۔ حالیہ اضافہ 2025 میں پہلی مرتّبہ نہیں، مگر اس سے قبل ایک مخصوص عرصے کےدوران کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔وزراء بننے سے پہلے ان کی تنخواہیں دیگر افسران سے میچ نہیں کرتی تھیں۔حالیہ اضافہ یہ خلا پر کرنے کا اقدام ہے۔ یعنی اب وزراء، پارلیمنٹیرینز، بیوروکریٹس (گریڈ22) کے برابر بنیادی تنخواہ پر آ گئے ہیں ۔وزراء نے "سرکولیشن سمری" کے ذریعے ایکسچینج کورس میں فروری/مارچ 2015 میں اضافہ کیا ۔ کوئی مخصوص مدت کا فارمولہ (مثلاً ہر پانچ یا سات سال بعد اضافہ) پارلیمنٹیرینز یا وزراء کے لیے موجود نہیں۔فیصلے "بازاری اور سیاسی فشار", یا "پرفارمنس و تناسبی دلائل" کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔جیسے حالیہ عدالتوں میں موجود مالی دباؤ، IMF شرائط، بیوروکریٹس کے ساتھ مساوات، وغیرہ۔ حالیہ اضافے پچھلے تقریباً 7-10 برسوں کے سب سے بڑے اضافے کے طور پر سامنے آئے: پارلیمنٹیرینز نے 140 جبکہ وزراء نے 159-188کے قریب اضافہ کیا۔ یہ اضافے تاریخی لحاظ سے غیر مقرر وقفوں پر کیے گئے۔2015-16 کے علاوہ، اب 2025 میں ایک بڑا بل بنایا گیا۔ وفاقی وزراء نے پارلیمنٹیرینز کے معاوضے کو اپنے برابر لانے کی غرض سے قانون میں ترمیم کروائی،۔حالانکہ ان کی تنخواہ میں پچھلے اضافے غیر متواتر تھے۔

مہنگائی، بے روزگاری اور ریٹ کنٹرول مسائل کے مد میں یہ معاملہ عوامی تحریک کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس اضافے کی سماعت، استفسار اور احتجاج کیلئے آئینی راستے اختیار کرسکتی ہیں۔ عوام مزید مطالبہ کر سکتی ہے کہ بتایا جائے کہ یہ اضافے کتنے عرصے کے لیے اور کس پیمانے پر ہیں اور پارلیمنٹیرینز کا ٹیکس ریٹرنز و دیگر مالی معلومات کا کیا حال ہے۔ یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کا ہر طبقہ مہنگائی کے شکنجے میں ہے۔ اس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے۔ حکومتی دعوے کہ اس اقدام سے بدعنوانی کم ہوگی یا صنعت میں میرٹ کی بحالی ہوگی۔ عوام کی جانب سے شکوک و شبہات میں بدل رہے ہیں۔
حکومت کے سامنے ایک سنجیدہ امتحان ہے۔ یا تو وہ اپنی پالیسی کو شفاف بنائے، اضافوں کے حق میں ٹھوس معقول دلائل پیش کرے، اور عوام کے اقتصادی دباؤ کو کم کرنے کے عملی اقدامات دکھائے۔ وگرنہ یہ مسئلہ برطانوی دورِ اقتدار کے بعد دوبارہ عوامی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔

ریڈڈیٹ پرمتعدد پوسٹس میں عوام نے اس اقدام پر شدید تنقید کی:
"کابینہ نے دہشت گردی کے جواب میں اپنا معاوضہ 188٪ بڑھا لیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔“
"عام شہری بھوک مٹانے کو struggles کر رہا ہے۔بچوں کے لیے کھانا بھی نہیں، اور یہ لوگ اربوں روپے کے اضافہ لے جاتے ہیں۔ یہ استحصال ہے۔“
ایک اور صارف نے کہا:
”1 لاکھ سے 950 لاکھ تک۔ یہ کرپشن ہے، لعنت ہو ایسے ڈاکوؤں پر۔“
ایک قابل ذکر تبصرہ:
”اگر کوئی ایماندار اور محنتی ہو تو وہ اتنے پیسوں پر بدعنوانی سے بچ سکتا ہے۔“
"جب ایک عام شہری 30 ہزار ماہانہ پر گزارا کرتا ہے، تو وزیر کیوں نہیں؟ یہ خالص چوری ہے۔4-5 لاکھ کی بجائے 21 لاکھ لے لیں بس کرپشن چھوڑ دیں۔“ ایک صارف نے لکھا:
"جب متوسط مزدور 50 ہزار پر گزارا کرتا ہے، یہ لوگ4۔11 ملین روپے سالانہ لے رہے ہیں۔ یہ خالص ٹیکس چوری ہے۔“

بعض صارفین اس کے حق میں بھی تھے:
"اگر حکومت اہل لوگوں کو اچھی تنخواہ دے تو بدعنوانی کم ہوگی یہ ایک اچھا قدم ہے۔“
لیکن مجموعی ردعمل میں افسوسناک معاشی صورتحال اور عدم مساوات کے تناظر میں اس اقدام کو ناانصافی اور عوام کا استحصال قرار دیا گیا۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھ ہے۔ اور تنخواہیں کافی کم ہیں۔ اوسط شہری کی ماہانہ آمدنی 20-50 ہزار روپے ہے جبکہ ایم این اے کی بنیادی تنخواہ اب 19۔5 لاکھ روپے ہے – جو 10 سے 25 گنا زیادہ ہے۔تنخواہ کے علاوہ جو مراعات ہیں:گھروں کے کرائے، بل، خصوصی پنشن، کمرشل گاڑیاں،پٹرول، یوٹیلیٹی بلز،مفت ائیر ٹکٹ۔وہ عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ Redddit صارف نے لکھا: "ریٹائرڈ ججز کو ماہانہ 1 ملین پنشن ملتی ہے، 2000 یونٹ مفت بجلی، 30 لیٹر مفت پیٹرول۔“

یہی مراعات پارلیمنٹیرینز کے لیے بھی ہیں۔ جس سے متاثرہ عوام میں بے چینی مزید بڑھتی ہے۔پارلیمنٹیرینز کا تنخواہوں میں اضافہ اپنی جگہ، لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ کیا اس میں عوامی مفاد بھی شامل ہے؟ کیا یہ اضافہ حقیقی طور پر بہتر نمائندہ نظام یا خدمت کا سبب بنے گا، یا صرف حکومتی طبقات کی آمدنی میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اسے اپنا پیسہ سمجھیں گے اور آیا حکمران اس پیسہ کے عوض عوام کے لئے واضع نتائج پیش کر سکیں گے؟

حکومت کے سامنے ایک سنجیدہ امتحان ہے۔ یا تو وہ اپنی پالیسی کو شفاف بنائے، اضافوں کے حق میں ٹھوس معقول دلائل پیش کرے، اور عوام کے اقتصادی دباؤ کو کم کرنے کے عملی اقدامات دکھائے۔ وگرنہ یہ مسئلہ برطانوی دورِ اقتدار کے بعد دوبارہ عوامی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور ریٹ کنٹرول مسائل کے مد میں یہ معاملہ عوامی تحریک کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس اضافے کی سماعت، استفسار اور احتجاج کیلئے آئینی راستے اختیار کرسکتی ہے۔عوام مزید مطالبہ کریں گے کہ یہ اضافے کتنے عرصے اور کس پیمانے پر ہیں، اور پارلیمنٹیرینز کا ٹیکس ریٹرنز و دیگر مالی معلومات کا کیا حال ہے۔

یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کا ہر طبقہ مہنگائی کے شکنجے میں ہے۔ اس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے۔ حکومتی دعوے کہ اس اقدام سے بدعنوانی کم ہوگی یا صنعت میں میرٹ کی بحالی ہوگی، عوام کی جانب سے شکوک و شبہات میں بدل رہے ہیں۔ اس فرق نے شہریوں میں انصاف کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں ۔اب وقت ہے کہ وفاقی نظام، عوامی نمائندگی، اور معاشی شفافیت کا ضابطہ قوم کو پیش کیا جائے۔ورنہ فرق بڑھتا جائے گا، اور عوام کا اعتماد دھوکے میں تبدیل ہوگا۔ حالیہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں وقتی کمی کے باوجود عام پاکستانی آج بھی 2022–23 کی معاشی آفتوں کے اثرات سے نہیں نکل پایا۔ ایسے میں "مساوی اجرتی اضافہ" اور "مہنگائی میں کمی" محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ ایک معاشی و اخلاقی ضرورت ہیں۔ جنوری–مارچ 2025 میں پاکستان کی سالانہ مہنگائی صرف 5۔1% رہی  ۔بعض ماہانہ اعداد (مثلاً فروری 2025 میں سی پی آئی 8%) سے پتا چلتا ہےہ کہ قیمتوں میں کمی بھی واقع ہوئی ۔ مگر اس کے باوجود عوام کی قوتِ خرید مسلسل گرتی رہی کیونکہ گزشتہ تین سال میں 20-30% مہنگائی کا سامنا رہا۔فروری–مارچ 2025 میں وفاقی وزراء نے 188% تک جبکہ عوام کو صرف 10% اضافہ دیا گیا۔اضافے کی شرح10% اور 188% جبکہ مہنگائی کی شرحسالانہ 5۔1 سے 2% (جنوری 2025)– اضافہ بمقابلہ مہنگائی برابری سے بہت کم بے حدو حساب ہے ۔اس سے عوام کی حقیقی آمدنی گھٹ جاتی ہے۔ رہ گئے  وزراء  تو انہیں نہ کوئی مہنگائی کا خوف، نہ کوئی پابندی۔ ان کی اضافی تنخواہ پورے معاشی مرحلے میں صفر اثر رکھتی ہے! پاکستان کی مہنگائی 2022-23 میں 38-26% تک پہنچی  ۔ 2023 میں گندم، چینی، دالوں، تیل وغیرہ 30-20% تک مہنگی ہوئیں ۔

2025 میں قیمتیں پہلے سے بہت بلند ہیں، اور آمدن گھٹ گئی ہے ۔ مارچ 2023 میں مہنگائی 35.4٪ کی ریکارڈ سطح پر پہنچی۔ گندم، چینی، تیل، بجلی، اور گیس کی قیمتیں 2 گنا سے 5 گنا بڑھیں۔ 2025 میں اگرچہ افراطِ زر 2.4٪ تک کم ہو چکی ہے، لیکن قیمتیں نیچے نہیں آئیں۔عوام کی اجرتیں بڑھتی نہیں، مگر افراطِ زر نے انہیں بدترین مفلسی میں مبتلا کر دیا وزراء کا دفاع یہ کہہ کر کیا گیا کہ کرپشن کم کرنے کے لیے تنخواہ بڑھانا ضروری ہے۔انہوں نے مراعات کے ساتھ بجٹ رکھا ہے۔ان کی تنخواہ بیوروکریٹس کے برابر ہونا چاہیے۔یہ جواز عوام میں بے حد بے اعتباری کا سبب بنا کیونکہ عام ملازمین نے کبھی اتنا معاوضہ نہیں سلام پایا۔ اساقدام نے کئی سوشل و اخلاقی سوال کھڑے کیے:عوام کا اعتماد کمزور ہواخاص طور پر جب وہ خود روزگار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ماس کمیٹس (جیسے KP ملازمین) کو 10% اضافہ ملا مگر وہ مہنگائی کی زد میں رہے۔ اسی دوران وزراء لاکھوں میں اضافے لے رہے تھے۔ آئینی اور سیاسی سوالات غیر متناسب افزائش ملکی آئین و انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔شارٹ ٹرم معاشی فرق پیدا کرتا ہے اور سماجی تقسیم کو بڑھاتا ہے۔

   یہ توہو گیا تقابل اور جائزہ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس مسئلے سے نکلنے کاکیا راستہ ہے؟
اگر پاکستان کو معاشی اور اخلاقی دونوں طور پر مستحکم کرنا ہے تو اقدامات ہونے چاہئیں:
وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی انکم اور فوائد عوام کو واضح کیے جائیں۔ عوامی تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کے مطابق ہو۔
تمام سرکاری اعداد و شمار آئین میں درج ہوں۔تاکہ انصاف کا بیڑا عوام کے ہاتھوں میں ہو۔
ایماندار نمائندوں کی تنخواہ مناسب ہونی چاہیے مگر استحصال سے بچنی چاہیے۔ سرکاری ملازمین کے تنخواہوں اور مہنگائی کے اعداد و شمار کی سالانہ رپورٹ کی اشاعت یقینی بنائی جائے۔
جب عوامی نمائندے خود کے لیے لاکھوں روپے اضافی معاوضہ منظور کریں اور عوام کو دو ہزار روپے ماہانہ اضافے پر ٹرخایا جائے تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔

آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25 کہتا ہے:
“تمام شہری قانون کی۔نظر میں برابر ہیں اور برابر تحفظ کے حق دار ہیں۔”
تو پھر تنخواہوں میں یہ فرق کس اصول پر؟
جواز یہ دیا گیا کہ "زیادہ تنخواہ سے کرپشن کم ہو گی۔" تو کیا یہ اصول صرف وزراء پر لاگو ہوگا؟
عام کلرک، استاد، نرس، کانسٹیبل،  لیکچرر  اور دیگر ملازمین بھی کرپشن سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔اگر انہیں مناسب تنخواہ دی جائے۔
جب ایک طبقہ تنخواہوں میں تین گنا اضافہ لیتا ہے اور دوسرا طبقہ صفر یا محدود اضافہ تو معیشت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے:
خریداری کی طاقت مخصوص طبقے تک محدود؛ غربت میں اضافہ؛ سماجی بے چینی بڑھتی ہے۔

Comments

Avatar photo

حمیرا علیم

حمیراعلیم کالم نویس، بلاگر اور کہانی کار ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، اسلامی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں، ان کی تحریر دردمندی اور انسان دوستی کا احساس لیے ہوئے ماحول اور گردوپیش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار وابستہ ہیں اور کئی لوگوں کے قبول اسلام کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ کہانیوں کا مجموعہ "حسین خواب محبت کا" زیرطبع ہے

Click here to post a comment