چند روز پہلے14 اگست کا دن گزرا۔ حکمرانوں نے پرچشم کشائی کی، مختلف بیانات دیے، بہت نعرے لگے کہ ہم آزاد قوم ہیں۔ مجھے اس سب پر کچھ شرم بھی آئی اور کچھ ہنسی بھی۔
ساراسال عوام پر ظلم و ستم کر کے، مودی سے دوستی کی پینگیں بڑھا کر، اپنی آف شور کمپنیاں بنانے اور IMF سے قرضے لینے کے بعد عوام کی ہمددریاں حاصل کرنے کے لیے ان بیانات پر بقول خواجہ صاحب کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔
کیسی آزادی؟
APS سکول میں پھولوں جیسے بچوں کو شہیدکرنے، باچا خان یونیورسٹی میں ملک کے مستقبل کے معماروں کو مسمار کرنے، مائوں کی گودوں سے اُن کی لخت جگر چھیننے، وکلاء کی لاشوں پر سیاست کرنے، ماڈل ٹائون میں چودہ معصوم لوگوں کے قتل ہونے، قصور میں دو سو بچوں کے بےآبرو ہونے کا نام اگر آزادی ہے تو پھر اس آزادی کے پودے کی خوب نگہداشت کی گئی ہے۔
آزادی محض زمین کا ٹکرا حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ بغیر کسی خوف، دباوْ اور دہشت گردی کے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔
جس قوم کے حکمران اُس کے فیصلے ڈالروں کی غرض سے دبئی کے فارم ہائوسز، لندن کے ہوٹلوں اور امریکا کے ایوانوں میں موجود کالی بھیڑوں سے کرواتے ہوں، جہاں ملک دشمنوں کو دندنانے کی اجازت ہو، جہاں عوام کے کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہ ہو اور اشرافیہ کے کتے بھیPizza سے ناشتہ کرتے ہوں، جہاں قانون بڑوں کے لیے کھیل تماشا اور عوام کے لیے گلے کا طوق ہو، جہاں کسی شخص کو بغیر جرم کے پھانسی ہو جائے اور کئی قتل اور اربوں ڈالر کی کر پشن کرنے والے آزاد پھرتے ہوں، تو پھر کیسی آزادی؟ اور کیسی آزاد قوم؟
یہاں آزادی پر بھی قبضہ مافیا کا راج ہے۔ اس نے آزادی کو اپنی لونڈی بنالیا ہے اور اْدھر غلامی کو ووٹوں کے بدلے عوام کو گفٹ کردیا ہے۔
تبصرہ لکھیے