مؤرخہ 7 مئی 2025 کو فرسٹ ائیر پری میڈیکل (انٹر بورڈ کراچی) کے طلبہ کا اردو لازمی کا پرچہ تھا۔ گورنمنٹ کالج میں بہ طور لیکچرار ہونے کے سبب امتحان میں نگرانی کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لہذا آج کے تین گھنٹے امتحان دینے والی طالبات کے ساتھ کمرۂ امتحان میں گزرے اور اس دوران ان طالبات کے اردو کے پرچے میں جو جو شاہکار سامنے آئے کہ دل بیٹھ سا گیا۔
حمد کے شعر کی تشریح میں وحدت کا لفظ آیا تھا تو ایک طالبہ نے پوچھا کہ مس وحدت کیا ہوتی ہے؟
پھر مفصل سوالات میں دو مضامین دیے گئے تھے جن میں سے ایک کرنا تھا
پہلا تھا: شجر کاری کی اہمیت
دوسرا تھا: مصنوعی ذہانت کے فوائد و نقصانات
ان سوالات پر طالبات کے نکمے سوالات کہ مس شجر کاری کیا ہوتی؟ اس سوال پر تو دماغ ایک سو اسی کے زاویے سے پورا پورا گھوم گیا کہ بیٹا آپ کو شجر کا مطلب بھی نہیں پتا؟؟؟ یہ تو چوتھی پانچویں کی اردو میں پڑھایا جاتا ہے۔ (میرے رائے میں تو انٹر کی سطح پر شجر کاری پر مضمون کا سوال ہی درجہِ طفل سے بھی نیچے ہے, اس سطح پر تو کوئی تنقیدی سوچ و زاویہ پر مبنی سوال و بحث ہو)
اگلا نکما سوال کہ مس یہ مصنوعی ذہانت کیا ہوتی ہے؟؟
پھر ایک کا نالائق سوال کہ مس جدت کے meanings کیا ہوتے ہیں ،، میں نے ٹوکا کہ meanings? یا مطلب؟ پھر کہا او سوری مس وہی نہ مطلب بتادیں اور اسے کیسے لکھتے ہیں؟
جسے خود انھوں نے جدد لکھا تھا۔
کمرۂ امتحان میں طالبات کو سوال سمجھانا تو ایک حد تک اجازت کے دائرے میں آتا ہے کیوں فرسٹ ائیر کی طالبات پہلی دفعہ انٹر بورڈ کا پیپر دیتی ہیں اسی لیے وہ گھبرائی ہوئی رہتی ہیں لیکن ایسے نکمے و نالائق سوال کا علاوہ
"حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں" کے کوئ حل نظر نہیں آتا۔
میرے بچپن میں گھر میں ہمدرد نونہال، تعلیم تربیت اور بچوں کا باغ ہر مہینے آتا تھا جو میں نے ایک عرصہ پڑھا اور جب ہمدرد نونہال کا خاص نمبر آتا تھا تو وہ عید کا دن لگتا تھا۔ میری مادری اور پہلی زبان اردو ہے اور یہی میرے والدین کی بھی پہلی اور مادری زبان ہے۔ میرا ماسٹرز اردو میں نہیں ہے لیکن میری اردو اچھی ہونے کی وجہ مذکورہ کتب کا پڑھنا اور میرے والدین کا گھر میں مکمل اردو میں بات کرنا ہے۔ جس سے میں نے اپنے شعور و لا شعور میں ذخیرۂ الفاظ بڑھائے۔
لیکن سوال پھر یہی ہے کہ اب کی نسل اردو زبان کے معاملے میں اس نہج پر کیوں کر ہے جب کہ یہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان ہے؟
پہلے کے والدین اور اب کے والدین میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلے کے والدین گہرے اور پختہ تھے اب کے والدین میں وہ پختگی نہیں محسوس ہوتی جو اِس وقت کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ابھی کے والدین کی خود اردو خراب ہے کہ جب وہ اپنے بچے سے بات چیت ہی غیروں کی زبان میں کریں گے تو بچہ کہاں سے تہذیب کو سمیٹے گا؟ مثلاً : بیٹا wait کرو، بیٹا آپ نے misbehave کیا تو میں آپ کو slap لگاؤں گی۔
زبان تہذیب کی امین ہوتی ہے اور جب آپ غیر کی تہذیب کو آگے بڑھائیں گے تو بچے میں کیا محفوظ ہوگا؟
اردو کا ستیاناس ہونے کی ایک بڑی وجہ رومن اردو ہے جس میں املاء ہی بگڑ جاتا ہے اور بہ جائے اس کے کہ موبائل میں اردو کا تختہ لگائیں انگریزی میں ہی اردو لکھنا ہے۔
کمرۂ امتحان میں اس پورے مشاہدے کا میرے مطابق کوئی حل نہیں جب تک کہ عمل کی جانب اقدامات نہ ہو۔ اور اس عمل میں والدین، اساتذہ اور اس نسل کا ازخود عملاً شامل ہونا آکیسجن جتنا ضروری ہوگیا ہے وگرنہ اتنے سنگین نتائج سامنے آئیں گے ہماری تہذیب، تاریخ، اخلاقیات سب پر پانی پھر جائے گا۔
میں نے یونی ورسٹی کی سطح پر بھی طلبا کو اردو میں حد درجہ کمزور پایا اور کالج کی سطح پر تو آج کے مشاہدے کے مطابق کورا۔۔۔ اور اس پر انھیں کوئ افسوس ہی نہیی ہے بل ان کی ذہنیت ہے کہ یہ کوئ بہت بڑا مقام ہے کہ مس وہ اردو نہیں آتی۔۔۔ یہاں نسل نو کی ذہنی تربیت اور زاویہ نگاہ کی تطہیر کی ضرورت ہے کہ اردو کو اگر آپ نہیں محفوظ کریں گے اور پروان نہیں چڑھائیں گے تو پھر یہ کام کون کرے گا؟
ایسے کئی اہم مفروضات پر مبنی سوالات جب تک طلبا کے سامنے نہیں رکھے جائیں گے وہ تنقیدی سوچ کی جانب از خود کبھی نہیں مائل ہو پائیں گے۔
یہ ایک اہم، حساس اور سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کی طرف بڑھنا ہی اس کا حل ہے۔
تبصرہ لکھیے