ہوم << ٹیچنگ : خدمت خلق یا پروفیشنل فیلڈ - محمد عاصم حفیظ

ٹیچنگ : خدمت خلق یا پروفیشنل فیلڈ - محمد عاصم حفیظ

گزشتہ دہائی میں ہمارے ہاں تیزی سے معاشرتی سماجی معاشی تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔ ہمارے ہاں ترقی و ٹیکنالوجی کی تبدیلی قدرے سست ہوتی ہے لیکن کرونا کے دھچکے نے دنیا کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ہلا دیا ۔ ہر شعبے میں بہت کچھ بدلا ہے ۔ ہمارا موضوع شعبہ تعلیم ہے ۔ ہوا یہ کہ خصوصاً سرکاری شعبہ تعلیم سکولز میں گزشتہ دس سال سے زائد کوئی بھرتی نہیں ہوئی جبکہ زیادہ تعداد اس سے بھی کہیں پہلے بھرتی ہونیوالوں کی ہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ شائد جن کی اکثریت بھی ہے وہ نہ صرف شعبہ تعلیم ۔ حکومتی نظام ۔ پرائیویٹ کارپوریٹ کلچر اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بدلتے تقاضوں کو اس تیزی سے سمجھ ہی نہیں سکے جس قدر تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی تھیں ۔ وہ پریشان ہیں اور معیار زندگی کی دوڑ میں مشکلات کا شکار ۔ ہم تنقید کر سکتے ہیں ۔ احتجاج کر سکتے ہیں ۔ بحث و مباحثہ کر سکتے ہیں ۔ جتنا چاہے وقت صرف کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو حکومتی سسٹم اور کارپوریٹ کلچر ڈیزائن کیا جا چکا ہے ۔ آپ اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ۔ آپ پریشان ہوں گے اور مشکلات کا شکار ۔

اگر آپ ٹیچنگ سے منسلک ہیں یا ہونا چاہتے ہیں ۔ نوکری شروع ہی کی ہے مڈ کیرئیر ہیں یا ریٹائرمنٹ کے قریب ۔ آپ اگر ان تیزی سے ہوتی تبدیلیوں کو نہیں سمجھیں گے ۔ اپنی تیاری نہیں کریں گے تو خود اور فیملی کے لیے مشکل ہو جائے گی ۔ پاکستان بھی ایک گلوبل ویلج کا حصہ ہی ہے ۔ یہاں کچھ تاخیر ہوتی ہے لیکن ہونا وہی ہے جو کارپوریٹ کلچر ۔ پرائیویٹائزیشن اور ٹیکنالوجی کنٹرول دیگر ممالک میں ہوا ہے ۔

فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔ آپ کسی خدمت خلق کے بے لوث مراعات و سہولیات سے دور شعبے سے منسلک ہیں یا کسی پروفیشنل فیلڈ میں ہیں ۔ آپ ماضی کی پریکٹس کے مطابق بس معاشرتی تربیت کا رضاکارانہ اور محدود معاوضے کا فریضہ نبھانا چاہتے ہیں یا پھر ایک پروفیشنل فیلڈ میں اپنی صلاحیتوں کے عوض سروس دینا چاہتے ہیں ۔

گستاخی معاف لیکن شاید اب وہ ماضی کا طریقہ نہیں چل پائے گا کہ جس میں استاد اپنے تعلیمی ادارے میں پڑھانے کے بعد باقی وقت مطالعے اور آرام میں گزارتا ۔ یہاں اب گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے معاوضوں کا دور چلے گا ۔ اگر آپ اپنی ایک جاب سے دوپہر ایک دو بجے تک فری ہو رہے ہیں تو یہ ایک پارٹ ٹائم مصروفیت ہے ایک اور ڈھونڈنی ہو گی ۔ شائد آپ اپنے کسی مغربی ملک میں رہنے والے دوست ۔ رشتہ دار سے سنتے ہوں کہ وہ لوگ وہاں دو سے تین جابز کرتے ہیں ۔ بس ایسا ہی کچھ سمجھ لیں ۔

شائد سننے میں اچھا نہ لگے لیکن اب وہ تقدیس ۔ احترام اور عزت والا اور خود ساختہ وقار کے بھرم والا ماحول بھی نہ رہے ۔ خود کے لیے سوچنا ہو گا کہ دوسری یا تیسری آمدن کہاں سے آئے گی ۔ جتنی دیر کریں گے اتنا اپنا نقصان ۔ اسی طرح تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ۔ بلکہ جو سرکاری بھی ہیں بہت جلد پرائیویٹ یا پرائیویٹ ماڈل پر ضرور چلے جائیں گے ۔ آپ کو اس ماحول میں ایک پروفیشنل بننا ہو گا ۔ محکمہ تعلیم کو بھی چاہیے کہ سکولز کالجز یونیورسٹیز کو با اختیار بنائیں ۔ ان کو مرکزی کنٹرول سے نکال کر فرنچائز سسٹم پر لے جائیں ۔ سربراہ ادارہ اپنی آمدن بڑھانے کا زمہ دار ہو اور وہ سٹاف کے ساتھ ملکر پراجیکٹ بنائے ۔ ہمارے ہاں ریلوے ۔ پوسٹ آفس سمیت کئی ادارے اب اسی پروفیشنل ماڈل پر چل رہے ہیں ۔ کئی سکولز کالجز اپنے ہاں بڑی آمدن جنریٹ کر سکتے ہیں ۔جس کا ڈائریکٹ فائدہ سٹاف کو ہو گا ۔ ایسے کورسز ۔ شارٹ کورسز حتی کہ گراؤنڈز اور ہالز کو کمرشل استعمال کرکے آمدن بڑھانے کے پراجیکٹس بنائے جا سکتے ہیں ۔

جس سکول کالج میں سٹاف کے لیے اضافی آمدن کے مواقع ہوں گے وہاں پھر آپ کو آن لائن حاضری یا دیگر چیکنگ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔ اکثریت سٹاف ادارے سے جاتا ہی کسی دوسری آمدن یا مصروفیت کے لیے ہے ۔ اگر اپنے ہی ادارے میں اچھا انتظام ہو تو سب یہاں ہی مصروف رہیں گے ۔ پنجاب یونیورسٹی شادی ہالز چلاتی ہے اور فلاور شاپس ۔ کمرشل مارکیٹ بنا رہی ہے ۔ بہت سے سکول و کالجز یہ سب کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق کورسز شارٹ کورسز وغیرہ ۔جن کی اجازت کے پراسس کو آسان ترین بنایا جائے ۔ ہر جگہ نہیں جہاں ممکن ہو وہاں پر کمرشل سرگرمیاں بھی ہو سکتی ہیں خصوصاً شہر کے مصروف ترین مقامات کے اداروں میں ۔

جن بچوں کے گھروں میں ائیر کنڈیشنر ہوتے ہیں اور سہولیات ۔ وہ آپ کے سرکاری سکول و کالج کے بغیر پنکھوں والے کلاس روم میں کیسے بیٹھیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا ماڈل ہو کہ اضافی فیس کیساتھ سیلف فنانس ماڈل اپنا کر یہ سہولیات فراہم کر دی جائیں ۔ ٹیچرز کو بھی اضافی آمدن ہو اور عمارت کا استعمال بھی ۔ وزیر تعلیم روز کہتے ہیں کہ سرکاری سکول و کالجز ایکڑز میں ہیں اور پرائیویٹ مرلوں میں ۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ دونوں کی کلاس روم سہولیات میں کتنا فرق ہے ۔ پی ایچ ڈی ٹیچر کی کلاس میں پنکھا نہیں ہو گا یا وہ باہر کسی درخت کے نیچے کلاس لے رہا ہو گا تو کتنے بچے اس مشقت سے گزریں گے ۔ معاشرہ بدل گیا ہے ۔ لوگ خود اور بچوں کی سہولیات دیکھتے ہیں ۔ مقابلہ برابر کی سہولیات دے کر ہوتا ہے ۔ غریب و متوسط خاندانوں کے بچوں کے لیے بھی ضرور انتظام کریں ۔ سکالرشپس دیں ۔ لیکن جب تک سرکاری اداروں میں سہولیات برابر نہیں ہوں گیں تو مقابلہ کیسا ۔ صرف ٹیچر ہونے سے کیا ہو گا ۔

اسی طرح محکمے کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو پرانے فرسودہ نظام کے تحت چلانے کی بجائے نئے تقاضوں کے مطابق چلائے ۔ فنانشل ماڈل بہتر ہو گا آمدن بڑھے گی تو اداروں کی حالت خودبخود بدل جائے گی ۔ سرکاری فنڈز پر انحصار کے ساتھ ساتھ مزید آمدن کے ذرائع بڑھانے کی ضرورت ہے
شعبہ تعلیم سے منسلک اساتذہ ۔ انتظامیہ کو جدت اور نئے تقاضوں کے مطابق چلنا ہو گا ۔ اداروں کا انتظامی اور فنانشل ماڈل بدلنا ہو گا ۔ اور یہی وقت کا تقاضا ہے ۔

Comments

Avatar photo

محمد عاصم حفیظ

محمد عاصم حفیظ پنجاب یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کمیونیکیشن اسٹڈیز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ دنیا ٹی وی، العربیہ چینل، وقت نیوز اور پیغام ٹی وی میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی ہیڈ کوارٹر دوہا قطر میں میڈیا ٹریننگ کورس کیا۔ کئی اخبارات اور رسائل میں سینکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ میڈیا اسٹڈیز کے طلبہ کے لیے نصابی کتاب لکھ چکے ہیں۔

Click here to post a comment