ذرا تصور ہی تصور میں خود کو حشر کے میدان میں لگے ترازو کے سامنے کھڑا کر دیں۔ اللہ کے منادی کی طرف سے حکم ہوچکا ہے کہ آپ کے اعمال تولے جائیں۔ آپ کا دل اتنی زور سے دھک دھک کر رہا ہے کہ لگتا ہے مچل کر سینے سے باہر آجائے گا۔ آپ آس پاس نظر دوڑاتے ہیں لیکن کوئی چہرہ ایسا نہیں دکھتا جو ضرورت پڑنے پر آپ کی مدد کرسکے۔ ترازو کے دونوں پلڑے، کبھی اوپر تو کبھی نیچے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی آپ کا دل بھی ڈوبتا اور تیرتا ہے۔ دھڑکا یہی لگا ہوا ہے کہ نہ جانے کیا انجام ہو۔ ایسے میں آپ کی نیکیوں والا پلڑا تھوڑا سا ہلکا ہوجاتا ہے۔ آپ یہ منظر دیکھ کر دہل جاتے ہیں۔ ڈیوٹی پر موجود فرشتہ آپ سے کہتا ہے کسی سے دس نیکیاں مانگ لو کہ صرف اتنی ہی کم پڑ رہی ہیں۔ آپ فوراََ ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ اب آپ کو کچھ جاننے والے بھی نظر آجاتے ہیں۔ ان میں آپ کا ایک بہترین دوست بھی شامل ہے۔ آپ اس کے پاس دوڑ کر جاتے ہیں اور منت سماجت کرتے ہیں کہ وہ دیکھو میرا کام بنا پڑا ہے بس صرف دس نیکیاں درکار ہیں اگر کچھ مدد کرسکو!
دوست بے رخی سے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہتا ہے جا یار اپنا کام کر۔ مروائے گا کیا؟ اگر مجھے ضرورت پڑ گئی تو کہاں سے لاؤں گا۔
اسی اثنا میں آپ کی نظر آپ کے سگے بھائی پر پڑتی ہے، جس کے ساتھ آپ نے بچپن گذارا، کھیل کود کیا اور دونوں بھائی محبت کی اس منزل پر پنہچے کہ دنیا والے مثالیں دیا کرتے تھے۔ لیکن آج بھائی بھی بیگانہ ہے۔ کہتا ہے: بھائی تو دس نیکیوں کی بات کرتا ہے۔ واللہ میں تو ایک بھی نہیں دے سکتا۔
پھر آپ کی نظر آپ کی والدہ پر پڑتی ہے۔ آپ دل ہی دل میں سوچتے ہیں کہ شکر ہے کام بن گیا۔ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔ آپ دوڑتے ہوئے ان کے پاس جاتے ہیں اور ماجرا بیان کرتے ہیں۔ ماں بھی کہتی ہے کہ بیٹا مجھے تجھ سے پیار ہے لیکن مجبوری ہے۔ میں کیا کروں گی اگر مجھے حاجت پڑ گئی؟
ہر طرف سے مایوس ہوکر آپ ایک طرف مغموم ہو کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ زندگی کی فلم آپ کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ آپ اپنے دماغ پر زور دے کر سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کون کون سے مواقع ایسے تھے کہ کم از دس نیکیاں تو کمائی ہی جا سکتی تھیں۔
آپ کو یاد آتا ہے کہ ایک دن آپ گلی سے گذر رہے تھے، سامنے سے ایک مسلمان آ رہا تھا لیکن آپ نے اس کو سلام نہیں کیا۔ آپ دل ہی دل میں کہتے ہیں: یار دس نیکیاں تو اس سے بھی مل سکتی تھیں۔
پھر سوچتے سوچتے آپ کو یاد آتا ہے کہ میں فلاں دن گاڑی چلاتے ہوئے گانے سن رہا تھا، اگر گانے سننے کے بجائے اللہ کا ذکر ہی کرلیتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ یار ایک بار سبحان اللہ کہنے سے مجھے کس نے روکا تھا؟ ہائے میری بدبختی!
پھر آپ کو یاد آتا ہے کہ میں فلاں دن عصر کی نماز شروع ہونے سے دس منٹ قبل مسجد کی طرف چل پڑا تھا لیکن جب دیکھا کہ نماز میں ابھی کچھ دیر باقی ہے تو موبائل سے کھیلنے لگ گیا تھا۔ حالانکہ اگر عصر سے پہلے کی چار سنتیں پڑھ لیتا تو آج یوں پریشان نہ ہونا پڑتا۔
مقصد ہے کہ آپ کو ہر ہر وہ منظر یاد آنے لگتا ہے جہاں آپ نے موقع ہونے کے باوجود نیکیاں ضائع کیں اور ہر ہر وہ عمل یاد آتا ہے جن سے آپ کی برائیوں میں اضافہ ہوا۔
گو کہ اس وقت یہ ایک مفروضہ ہے لیکن ہے حقیقت۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ سب کچھ کسی اور کے ساتھ ہونا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ مرحلہ درپیش ہے۔ کیا خبر کس وقت بلاوا آجائے۔ اس لیے اللہ، جس سے بڑھ کر کوئی انسان کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا، جھنجھوڑتا ہے، پکارتا ہے، ڈراتا ہے، بیدار کرتا ہے۔
اور دیکھیں اس کی پکار میں کتنا درد ہے، کتنی خیرخواہی ہے، کتنا پیار ہے:
[pullquote]يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (6) الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (7) فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ
[/pullquote]
اے انسان کس چیز نے تجھے اس رب کریم کی طرف سے دھوکہ میں ڈال دیا ہے جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سْک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ کر تیار کیا۔
دنیا آخرت کی کھیتی، جو بوئو گے کاٹو گے، اس لیے بھائیو اور بہنو! کچھ اچھا ہی کاشت کرلو۔
تبصرہ لکھیے