دنیا میں دو ہی طرح کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ایک تخت کا دوسرا ماں کی گود کا۔اول الذکر کا تخت کانٹوں کی سیج ہوتا ہے جہاں ہر طرح کی مشکلات،رکاوٹیں ،دشمنیاں اور تنزلی کے خطرات رہتے ہیں اور بعض اوقات تو بادشاہ سلامت کی گردن تک مار دی جاتی ہے۔مگر ماں کی گود کی بادشاہت کے نظارے ہی الگ ہوتے ہیں۔بادشاہ سلامت (بچے) کی ایک ایک پکار پہ ماں سو سو بار لبیک کہتی ہے۔توتلی زبان سے پوچھے گئے ایک سوال کا بڑے لاڈ،پیار اور چاؤ سے دس دس بار جواب دیا جاتا ہے۔سوتے وقت بادشاہ سلامت کی نیند کا خیال رکھا جاتا ہے۔بچے کی راحت کے لیے ماں خود گیلی جگہ سو جاتی ہے۔باپ اپنے بچے کو زمانے بھر کا سکھ ، سکون اور زندگی کا مقصد دینے کے لیے خود دن بھر زمانے کی دھول چاٹتا ہے ۔ اور یہ سب صرف اس لیے ہوتا ہے کہ خدا کے بعد بچے کی پیدائش کا موجب وہ ہوتے ہیں۔ ایک روح کے دنیا میں پہلا سانس لینے تک ماں کے اپنے سانس کتنی بار اکھڑتے ہیں وہ کس تکلیف سے گزرتی ہے اس کا احساس روۓ زمین پہ کوئی نہیں کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ خود تخلیق کار ہے اس لیے اس نے بچے کو پیدا کرنے اور پھر زندگی بھر تکلیفیں برداشت کرکے اسے پالنے والے والدین کو اپنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے بعد سب سے ضروری اور مقدم بنایا۔ قرآن پاک میں چار بار اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کیساتھ والدین کا ذکر کیا۔سورہ انعام کی آیت نمبر 15 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔ " آپ ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پہ کیا کچھ حرام کیا ہے۔اور وہ یہ ہےکہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ پھر سورہ اسراء کی آیت نمبر 22 میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اس طرح بیان کیا" اور فیصلہ کر دیا ہےآپ کے رب نے کہ مت عبادت کرو کسی کی سواۓ اس کے اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تو انہیں اف تک مت کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو نرمی کیساتھ ". ایک قول مشہور ہے کہ " با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب " اور ادب کا یہ عمل اور اس کی منزل والدین کے حوالے سے ہی بیان ہوئی ہے۔
خدا کی کل مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ دیا گیا ہے تو اس کی دیگر وجوہات کیساتھ والدین کا ادب ہے۔ حضور پاک سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جو خود یتیم پیدا ہوئے بچپن میں ماں جیسی ہستی کے شفیق ساۓ سے بھی محروم ہو گئے ۔آپ فرماتے ہیں کہ میری ماں ژندہ ہوتی میں نماز پڑھ رہا ہوتا اور وہ مجھے پکارتی تو میں نماز چھوڑ کر اس کی بات سنتا۔اپ کی دائ حلیمہ سعدیہ جب بھی آپ کے ہاں تشریف لاتیں تو آپ احترام سے کھڑے ہو جاتے ۔ انسان جن والدین کے صحن میں جوان ہوتا ہے اسے پالنے میں عشروں پہ محیط بے لوث محبت اور کوشش جو والدین نے صرف کی ہوتی ہے۔اپنوں ،پرایوں کے دیے زخم سہے ہوتے ہیں کوئی دوسرا انسان اس تپسیا کا نہ اندازہ کر سکتا ہے نہ اس کا نعم البدل دے سکتا ہے حتیٰ کہ خود اولاد بھی نہیں۔
ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ کے پاس ایک شخص آیا اور فخر سے بتانے لگا کہ اس نے سینکڑوں میل ماں کو کندھوں پہ اٹھا کے سفر کیا اور ماں کو حج کروایا۔اپ نے جواب دیا کہ تیری ماں نے تمہیں جننے کی جو تکلیف برداشت کی تم نے اس کا بھی حق ادا نہیں کیا۔ حضرت اویس کرنی رضی اللہ تعالیٰ ماں کی اطاعت میں زندگی بھر حضور پاک کی زیارت نہیں کر سکے۔مگر ماں کی خدمت کی وجہ سے ان کا رتبہ اتنا بلند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت علی کو اپنا کرتا دے کر آپ کی خدمت میں بھیجا اور ان سے امت کی بخشش کی دعا کروائی ۔
آج کے اس ہیجان خیز اور تیز تر دور میں والدین اور بچوں کا رشتہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔پچھلے دو،تین عشروں میں وقت نے بڑی تیزی سے کروٹ لی ہے۔معاشی اور معاشرتی دباؤ میں بچوں کو شہزادوں سی زندگی دینے کے خواہاں والدین بے بس اور مجبور نظر آ رہے ہیں دوسری طرف سوشل میڈیا کے ظہور کے بعد انگلیوں کی جنبش سے ساری دنیا کے حالات و واقعات اور جدید رجحانات دیکھ لینے والے بچے والدین سے ناخوش اور نالاں ہیں۔ان کی زباں پہ سواۓ شکووں ،شکایتوں کے کچھ نہیں۔اج والدین کے سامنے بچوں کا یہ جملہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ "آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے ؟ "
دنیا کے تیز تر رجحانات ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتے ہوئے شعور میں فرق ڈال سکتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ سادہ تر ماحول میں زندگی جینے والے والدین خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکے ہوں۔۔۔اج جب انسانیت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے ہمارے والدین موقعہ پرستوں کی چالوں سے نا واقف ہوں۔ہماری پرورش کرتے انہوں نے اپنوں ، غیروں سے دھوکے بھی کھائے ہوں۔یہ بھی ممکن ہے ذہنی سادگی کی وجہ سے آج کے دور کی ضروریات کو سرے سے سمجھ ہی نہ پا رہے ہوں۔
مگر ان تمام تر بشری کمزوریوں ،کوتاہیوں کے باوجود کیا کوئی انسان ان کے خلوص پہ بھی سوال اٹھا سکتا ہے۔؟
دنیا کے تمام رشتوں سے زیادہ بے لوث محبت کرنیوالا رشتہ والدین کا ہے۔
اگر ہمیں گود میں اٹھائے زندگی کے پرخار راستوں پہ چلتے ہوئے ان کے قدم کبھی ڈگمگائے بھی ہوں تو ممکن اس کی وجہ ہمارا بوجھ ہی ہو۔
والدین شیر خوارگی بچپن،لڑکپن،جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر تک ہماری زندگی کے کتنے مراحل میں کانٹوں سے بچانے کے لیے ہمیں گود میں اٹھائے رکھتے ہیں۔اور ہمیں تو صرف ان کی زندگی کا ایک ہی مرحلہ پر سکون بنانا ہوتا ہے جسے بڑھاپا کہتے ہیں۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے جو آج ہم بوئیں گے کل وہی کاٹیں گے۔
آج انسان دنیا بھر سے رابطے میں ہے اور دنیا میں میں لانے والوں سے بے نیاز ۔
یہ روش ماسوائے تباہی کے کچھ نہیں دے گی۔شاید دنیا میں بے سکونی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔آپ زندگی کے جس مرحلے پہ ،جس مسئلے سے گزر رہے ہیں۔خدا نے جنہیں آپ کو یہاں تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا کبھی ان سے ناطہ جوڑ کے دیکھیں۔دنیا کے وہ وہ منظر بھی آپ کی آنکھیں دیکھ لیں گی جنہیں دیکھنے کے لیے معجزوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
والدین کے بے لوث رشتے پہ حقیر کے کچھ ادھورے الفاظ۔
ماپے کہندے جنہاں نوں او عکسِ خدا ہوندے
لج پلدی اوہناں سر جیہڑے چلدے پھردے دعا ہوندے
ویچ دیندے خودی اپنی تے روز فاقیاں مردے نیں
اولاد دے ہاسیاں پچھے روز ڈبدے ،تردے نیں
اک اتھرو اوہناں دا جگ توں بھارا ہوندا
سو جاناں لٹا کے وی نہ ادا اوہدا کفارہ ہوندا
جیس ویہڑے پھردے ماں باپ سوہنے
نصیب مہکن اوہناں دے جیویں گلاب سوہنے
تبصرہ لکھیے