ٹرین اڑی جارہی تھی.
دروازے پر کھڑے ہو کر لہراتی بل کھاتی پٹریوں کو دیکھ کر محبوب کے ابرو کے پیچ و خم اور گردن کے حمائل یاد آئے. اردو شاعری کی رائج تشبیہات اس لیے یاد آئیں کہ ہماری منزل میر و غالب کی دہلی تھی. جہاں کا ایک کباب فروش بھی اپنے کبابوں کی تعریف اردوئے معلّی میں کرتا ہے.
’’میرے کبابوں کی خوشبو جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر وہاں سجدہ ریز مصلّیان کی نعلوں کا بوسہ لیتی ہے.‘‘
کچھ رومانی موسم کی بھی کرم فرمائی تھی کہ صبح سے شہنشاہِ خاور بھی محجوب ہوئے بیٹھے تھے. بادلوں کی پھٹی ہوئی ردا سے کبھی کبھی کرنیں نمودار ہوتیں لیکن کسی جانب سے تیرتا ہوا بادل ان کرنوں کا محرم بن جاتا تھا.
دلّی کا سفر طے شدہ نہیں تھا. عید کے روز عشاء بعد چند بے فکروں کے ساتھ ایکسپریس ہائی وے کی ایک ہوٹل پر چائے سے شغل ہو رہا تھا. عید کی چھٹیاں قریباً ایک ہفتے کی تھیں، انہی کو ٹھکانے لگانے کی فکر اس کارگہِ حیات میں ہماری اکلوتی فکر تھی.
ماہِ رمضان کی عبادات کے بعد ہم بالکل خمار بارہ بنکوی والی کیفیت میں مبتلا تھے.
جتنی بھی میکدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زہد کے صحرا سے آئے ہیں
نگہِ انتخاب ارض گوا کے مرغزاروں پر ٹہر سی جاتی تھی، بوڑھے سمندر سے گھرے خوبصورت لہلہاتے اور اٹھلاتے جزیرے چشم تصوّر میں دعوتِ نظارہ دے رہے تھے،
لیکن رمضان کے تقوی کا بھرم ایک دم سے گوا کے ساحل پر دفن کر دینا دل کو گوارا نہ ہوا.
عامر عثمانی نے کہا تھا
چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں
کوئی وحشی کوئی دیوانہ نظر آیا ہے
عشق کے ویرانے پر دلّی دل میں مچلنے لگی. سو ہم نے دوستوں کے بیچ دہلی کا شوشہ چھوڑ دیا. دوستوں نے یوں دیکھا گویا فدوی نے انہیں قیامت کی خبر دی ہو. دلّی اوور بجٹ تھی. اسی وقت ہم نے عزیزی کو فائنانسر کے طور پر آگے کردیا جس کی جیبیں چاند رات سے ہی پھولی نظر آرہی تھیں.
سو عید کے تیسرے دن ہم پانچ دوست عامر، عبید، وسیم، ارمان اور فدوی شیرڈی سے حضرت نظام الدین ہوتے ہوئے کالکا جانے والی ٹرین میں تھے. عزیزی ہمارے ساتھ نہ آسکا کیونکہ دو دن بعد اسے ڈیوٹی جوائن کرنی تھی.
عامر ایک بے فکرا شب گزیدہ نوجوان ہے. جب دوسروں کی گھڑی میں رات کے نو بج رہے ہوں تب اس کی گھڑی میں صبح کا نو بج رہا ہوتا ہے گویا دن ابھی نکلا ہو.
وسیم کو قدرت نے وہ صلاحیت دے رکھی ہے کہ وہ جب چاہتا ہے ہمارے درمیان بیٹھ کر اپنے کانوں کے ٹیون چینج کرکے کسی اور فریکوینسی سے فیض حاصل کرنے لگتا ہے. جھنجھوڑے جانے پر معصومیت سے ایک ’’کیا ہوا‘‘ سے نواز دیتا ہے-
ارمان ایک سیدھا سادا معقول اور بسا اوقات نامعقول سا بندہ ہے. اس کی ایک ہی تمنّا تھی کہ وہ کسی طرح فیروزآباد پہنچ جائے اور وہاں سے اپنی بیوی کےلیے چوڑیاں خرید سکے. ستم بالائے ستم کہ اس کے بیگ میں چوڑی کا سائز کا سیمپل بھی رکھا ہوا تھا.
عبید ایک انجینئر ہے. اس کے حالات بھی انجینئروں کے حسبِ حال ہیں. اس کی انجینئرنگ کا پہلا سال شاہد کپور بن کر گزرا، دوسرا سال اکشے کمار، تیسرا سال سنیل شیٹھی اور آخری سال تک پہنچتے پہنچتے وہ گینگ آف واسع پور کا منوج واجپائی بن چکا تھا.
فدوی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے.
کسی عورت سے اسی کے انداز میں ہاتھ نچا نچا کر لڑنے کی تمنّا ایک مدّت سے تھی جو وطنِ مالوف میں پوری نہ ہوسکی تھی، وہ کالکا ایکسپریس میں متھرا کی ایک عقیدت مند سے لڑ کر پوری ہوئی. ٹرین میں وہ انجینئر کو اٹھا کر اس کی جگہ سونا چاہتی تھی-.انجینئر نے بےچارگی سے میری جانب دیکھا. اس عورت سے زبردست ڈوئل ہوئی. میں نے’’دلائل و براہین‘‘ کے ڈھیر میں اسے ایسا دفن کیا کہ وہ دھمکیاں دیتی ہوئی اپنی سیٹ پر ’’بمشکل‘‘جلوہ افروز ہوئی. لفظ ’’بمشکل‘‘ اس کے تن و توش کے اعتبار سے استعمال کیا گیا ہے.
چوبیس گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد دہلی حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن پر ہمارا نزول ہوا. دہلی کی جو تصویر ممبئی میں رہتے ہوئے دل میں بنائے بیٹھے تھے وہ ساری ہر آن ڈھیر ہوتی جارہی تھی. نظام الدین جنکشن سی ایس ٹی کا عشر عشیر بھی نہیں ہے. اکّا دکا فیمیلیز ادھر ادھر بیٹھی ہوئی ہیں. چند قلی جماہی لے رہے ہیں. کلاشنکوف تھامے گارڈ اونگھ رہا ہے. سی ایس ٹی اور نظام الدین میں ایک قدر مشترک تھی کہ خواتین یہاں بھی بنی ٹھنی ہوئی تھیں. بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دلّی کا جزوی ریلوے اسٹیشن ہے. اصل اسٹیشن آگے ہے اور وہاں جانے کی تمنّا ہم میں سے کسی کو نہیں تھی.
اسٹیشن سے پیدل ہی حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کی جانب رخ کیا. اس تنگ سی گلی میں دلّی کے تین نابغے مدفون ہیں. حضرت نظام الدّین اولیا کے علاوہ طوطی ہند حضرت امیر خسرو اور اسداللّہ خان غالب کی آخری آرام گاہیں اسی گلی میں ہیں. شاید انھی قبروں کی مناسبت سے گلی میں موجود بنگلہ والی مسجد کو تبلیغی جماعت کا مرکز بنا دیا گیا کہ ’’بدبختو! ان قبور کو دیکھو اور اپنی قبر کی فکر کرو.‘‘
گلی میں آگے آگے چلتا ہوا انجینئر اچانک مڑ کر مجھ سے مخاطب ہوا.
’’مزارِ غالب پر چلنا ہے؟‘‘
’’ہاں یار! کیوں نہیں.‘‘
وہ داہنی جانب ایک شکشتہ چہار دیواری کے زنگ آلود دروازے میں داخل ہوگیا. کبھی اسی دروازے سے گزرتے وقت علّامہ اقبال نے کہا تھا.
’’بے شک شعراء کا حج یہیں ہوتا ہے.‘‘
مزار کے احاطے میں چند نوجوان کرکٹ کھیل رہے تھے اور ایک جانب غالب کے مزار پر قفل چڑھا ہوا تھا......ع
’’ہوئے ہم جو مر کے رسوا کیوں ہوئے نہ غرقِ دریا‘‘
مزار کی حالتِ زار اور شکشتہ در و دیوار دیکھ کر دل افسردہ سا ہوگیا. طرّہ یہ کہ نوجوان کرکٹ کھیل رہے ہیں.
قفل چڑھا دیکھ کر غالب کی مزار پر فاتحہ خوانی کی آس جاتی رہی. بوجھل قدموں سے واپس ہونے لگے تو ایک سکیورٹی گارڈ نظر آیا. اس سے مزار پر چڑھے قفل کی بابت سوال کیا تو اس نے دل کو اور ٹھیس لگائی.
’’تالا نہ لگائیں تو وہ لڑکے اس جانب بھی کرکٹ کھیلنے لگتے ہیں. اگر آپ مزار پر جانا چاہتے ہیں تو میں کچھ دیر کے لیے وہ حصّہ کھول دیتا ہوں-‘‘
کچھ سمجھ نہیں آیا کہ گارڈ کی بات پر خوش ہوا جائے یا ملول......... سنگ مرمر کی بنی گردوغبار سے اٹی ایک قبر........ لوحِ مزار کو دیکھا جسے کبھی اقبال سینے سے لگائے بیٹھے تھے اور ایک ’’ظالم‘‘ بچّہ اپنی دلسوز آواز میں
’’دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی‘‘ گا رہا تھا.
علّامہ آبدیدہ تھے. جب وہ بچّہ
وہ بادہِ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّت خواب سحر گئی
پر پہنچا تو اقبال نے بے اختیار لوحِ مزار کا بوسہ لیا اور اٹھ کھڑے ہوئے......ع
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلّی گل شیراز پر
آہ! تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیّل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
مزار کی یہ حالتِ زار اور اس سے متصل غالب اکیڈمی کی پرشکوہ عمارت جو لازماً اندر سے بھی شاندار رہی ہوگی، یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ غالب نام کی دکان اب بھی خوب چلتی ہے بس غالب کا کوئی پرسانِ حال نہیں.
اس گلی میں دو روز تک قیام رہا لیکن غالب اکیڈمی میں جانے کی طبیعت نہیں ہوئی. جو دیکھنا تھا وہ ہم غالب کے مزار پر دیکھ چکے تھے اب دل مزید حزن کا متمنّی نہیں تھا.
( جاری ہے )
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
ماشاء اللہ ، عمدہ تحریر ہے،ایسی اردو تو شاید ہم پاکستانی بھی نہ بول اور لکھ سکیں..
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور پُر لطف تحریر
ریحان خان میرے فیسبکی فرینڈ ہیں میں نے ان کی سیکڑوں تحریریں پڑھے ہیں لیکن ایسی شاندار تحریر پہلی بار پڑھ رہا ہوں
ریحان خان میرے فیسبکی فرینڈ ہیں میں نے ان کی سیکڑوں تحریریں پڑھے ہیں لیکن ایسی شاندار تحریر پہلی بار پڑھ رہا ہوں
[…] سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]