ہوم << بالی وڈ کا ’’خدا‘‘ - محمد عاصم حفیظ

بالی وڈ کا ’’خدا‘‘ - محمد عاصم حفیظ

عاصم حفیظ بھارتی فلموں میں سیکولرازم کی لہر کے تحت ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ اسلامی الفاظ، اللہ تعالی کے ناموں اور دیگر عقائد کو گانوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ خدا، جنت، رب، اللہ، آیت اور ایسے بہت سے الفاظ جو کہ اسلامی عقائد و ایمانیات کا حصہ ہیں انہیں گانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر اسلامی عقائد و نظریات کو بھی انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جائے گا تو دیکھنے والوں کے دل سے ان کے بارے میں عقیدت و احترام کے جذبات کم کیے جا سکیں گے۔ عقیدت ختم ہو جائے، ذات باری تعالی پر ایمان اور مقدس ہستیوں کے احترام کو موضوع بحث بنا دیا جائے تو یقینا اس سے مذہب سے دوری اور مکمل بیزاری کی منزل حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بھارتی فلموں میں مقدس اسلامی الفاظ کے استعمال کے بڑے ذمہ دار بھی وہ مسلمان رائٹر اور فنکار ہیں کہ جو بھارتی فلم انڈسٹری میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں۔ کوثر منیر، حنیف شیخ، جاوید اختر، خلیل الرحمن قمر، سید قادری اور ایسے ہی کئی نام ہیں کہ جو ان گانوں کو لکھتے ہیں، جن میں مقدس الفاظ کی بے حرمتی ہوتی ہے ،اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ سب کچھ ایسے فلمی مناظر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ جو اسلام کے طرز معاشرت کی کھلی مخالفت پر مبنی ہوتے ہیں۔ کسی فلم کی لو سٹوری بیان کرتے کرتے اس محبت کے کرداروں کو خدا، قرآنی آیات اور اسلامی القابات کے الفاظ میں پیش کر دیا جاتا ہے، اسلامی سلوگنز اور سمبلز کو گانوں میں ملا کر ان کا تقدس پامال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں، کچھ ان حقائق سے لاعلم ہیں تو کچھ جانتے بوجھتے ان گانوں سے تفریح حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
یہاں انتہائی معذرت کے ساتھ چند مثالیں صرف اس لیے پیش کی جا رہی ہیں کہ شاید ان کو دیکھ کر ہمارے دینی جذبہ رکھنے والے حلقوں میں کوئی بیداری پیدا ہو۔ وہ اس کو بھی ایک معاشرتی مسئلہ سمجھیں اور کبھی کسی فورم پر یہ بھی بات ہو کہ کس طرح انتہائی خاموشی سے ہمارے دل سے ذات باری تعالی، قرآنی آیات اور مقدس الفاظ کی عقیدت نکالی جا رہی ہے۔ ان کو فحش و عریاں مناظر کے ساتھ پیش کرکے کتنا بے قدر کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان الفاظ کے چنائو سے بھی آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح محبوب و محبت کے تقابل کے لیے اور کتنے غلیظ خیالات کے اظہار کے لیے مقدس اسلامی الفاظ کو استعمال کر لیا جاتا ہے۔ اس تحریر کا واحد مقصد ایک اہم مسئلے کی طرف اہل علم و دانش کی توجہ مبذول کرانا ہے۔ اگر ہمارے سماجی ماہرین، علمائے کرام ، سکالرز اور دیگر اہم دانشور اس حوالے سے توجہ دیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ کس طرح انتہائی غیر محسوس انداز میں ہمارے معاشرے کو بدلا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں ان گانوں کو شوق سے سنا جاتا ہے اور بغیر الفاظ پر غور کیے انہیں جھوم جھوم کر گنگنایا بھی جاتا ہے۔ ایک طرف پی کے، دھرم سنکھٹ اور او مائی گاڈ جیسی فلموں کے ذریعے مذہب پر تنقید اور اس کے شعائر و عبادات کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے تو دوسری جانب اس طرح کے گانوں کے ذریعے اسلامی مقدس الفاظ کو بے توقیر کیا جاتا ہے۔ ذرا آپ بھی ان گانوں کے الفاظ پر غور کریں ۔۔
٭فلم گینگسٹر کا گانا ہے’’ تو ہی میری شب ہے، صبح ہے، تو ہی دن ہے میرا، تو ہی میرا رب ہے جہاں ہے، تو ہی میری دنیا۔‘‘
٭ فلم پتھ شالا کا ایک گانا کچھ یوں تھا ’’اے خدا مجھ کو بتا، تو رہتا کہاں ہے کیا تیرا پتہ، ہم تو یہاں پے مسافر ہیں، جو ڈھونڈیں اپنی منزل کا پتہ‘‘
٭ راحت علی فتح خان کے ایک گانے کے الفاظ یہ تھے’’ محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا، ضروری تھا کہ ہم دونوں طواف آرزو کرتے‘‘ اسی کے اگلے الفاظ کچھ یوں ہیں ’’بتاؤ یاد ہے تم کو وہ جب دل کو چرایا تھا، چرائی چیز کو تم نے خدا کا گھر بنایا تھا، وہ جب کہتے تھے میرا نام تسبیح میں پڑھتے ہو، محبت کی نمازوں کو کھڑا کرنے سے ڈرتے ہو۔‘‘
٭ فلم دعوت عشق کا ایک گانا ’’ میری منت تو، تجھ کو ہی تجھ سے مانگا، میری منت تو، تجھ کو ہے مولا مانا‘‘
٭ فلم آواہ پن کا گانا۔’’ مینڈا عشق وی توں، مینڈا یار وی توں، مینڈا دین وی توں ایمان وی توں، ہو میرے مولا مولا، مولا ہو مولا مولا، مینڈا قبلہ وی تو، میرا کعبہ بھی تو، میری مسجد بھی تو میرا مندر بھی تو ہو میرے مولا مولا۔ مولا ہو مولا مولا‘‘
٭ فلم ڈولی کی ڈولی کا گانا ’’نہ سجدے میں دل نہ عبادت میں دل ہے بس آج کل توبغاوت میں دل ہے۔ تیری وجہ سے، تیری وجہ سے منہ پھیر بیٹھے ہیں اپنے خدا سے۔ میرے نینا کافر ہوگئے، تیری گلیوں کے مسافر ہوگئے۔‘‘
٭فلم ’’دل سے‘‘ کا گانا چھیّاں چھیّاں میں جنت اور آیات کے لفظوں کو کچھ یوں استعمال کیا گیا ہے: جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں، پاؤں کے نیچے جنت ہوگی، چل چھیّاں چھیّاں، تعویذ بنا کے پہنو، اسے آیت کی طرح مل جائے کہیں، وہ یار ہے جو ایماں کی طرح میرا نغمہ وہی میرا کلمہ وہی۔‘‘
٭ فلم ’’مجھ سے دوستی کروگی‘‘ کے گانے کے الفاظ ہیں: جانے دل میں کب سے ہے تو، تجھ کو میرے رب کی قسم، یارا رب سے پہلے ہے تو.‘‘
٭ کشمیر کے موضوع پر بننے والی فلم ’’فنا‘‘ میں ایک پہلو یہ تھا کہ تحریک ِآزادی کشمیر کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی فلم کے ایک گانے میں کہا گیا کہ چاند سفارش جو کرتا ہماری، دیتا وہ تم کو بتا، شرم و حیا کے پردے گرا کے کرنی ہے ہم کو خطا، سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ.‘‘ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی صفات ِمبارکہ اور اسماء الحسنیٰ کے ساتھ بےہودہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے پس منظر میں نازبیا حرکتوں کی عکس بندی ہوتی ہے، اور پس منظر میں رقص و سرود کے منظر فلمائے جاتے ہیں۔
٭ فلم ’’سانوریا‘‘ کے گانے کے الفاظ ہیں ’’جب سے تیرے نینا میرے نینوں سے لاگے رے، تب سے دیوانہ ہوا، سب سے بیگانہ ہوا، رب بھی دیوانہ لاگے رے.‘‘ (نعوذباللہ). اسی فلم کے ایک اور گانے میں ماشاءاللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، ’’دل نشیں دلکشی ہو یا جنت کا نور ہو ماشااللہ ماشااللہ ماشااللہ ماشااللہ۔‘‘
٭ فلم بچنا اے حسینو کا گانا: ’’سجدے میں یوں ہی جھکتا ہوں، تم پہ ہی آکے رکتا ہوں، کیا یہ سب کو ہوتا ہے، ہم کو کیا لینا ہے سب سے، تم سے ہی سب باتیں اب سے، بن گئے ہو تم میری دعا، خدا جانے میں فدا ہوں، خدا جانے میں مٹ گیا ہوں، خدا جانے یہ کیوں ہوا کہ بن گئے ہو تم میرے خدا۔‘‘
٭ فلم رب نے بنا دی جوڑی کا گانا ’’تجھ میں رب دکھتا ہے کے الفاظ ہیں، تجھ میں رب دکھتا ہے، یارا میں کیا کروں، سجدے میں دل جھکتا ہے، یارا میں کیا کروں۔‘‘
٭ فلم Love Aaj Kal کے لیے بھی کچھ اسی قسم کا گانا ’آج دن چڑھیا‘ گایا ہے۔ جس کے الفاظ ہیں: ’’مانگا جو میرا ہے، جاتا کیا تیرا ہے، میں نے کون سی تجھ سے جنت مانگ لی، کیسا خدا ہے تو بس نام کا ہے، تو ربا جو تیری اتنی سی بھی نہ چلی، چاہے جو کردے تو مجھ کو عطا جیتی رہے سلطنت تیری، جیتی رہے عاشقی میری.‘‘
٭ فلم My Name is Khan کے گانے کو بھی پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے: ’’اب جان لوٹ جائے، یہ جہاں چھوٹ جائے، سنگ پیار رہے، میں رہوں نہ رہوں، سجدہ تیرا سجدہ کروں، میں تیرا سجدہ.‘‘
٭ فلم پرنس میں عاطف اسلم نے ایک گانا گایا ہے ’’تیرے لیے‘‘۔ اس میں کہا گیا ہے: ’’جنتیں سجائیں میں نے تیرے لیے چھوڑ دی میں نے خدائی تیرے لیے.‘‘
٭ فلم Once Upon Time in Mumbai کے گانے کے الفاظ ہیں ’’تم جو آئے زندگی میں بات بن گئی، عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی.‘‘ یہ گانا بھی پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے۔ اس کے علاوہ راحت فتح علی خان نے جولائی 2010ء میں ریلیز کی گئی فلم I Hate Love Story کا گانا بھی ملاحظہ کریں، ’’صدقہ کیا یوں عشق کا کہ سر جھکا جہاں دیدار ہوا ، وہ ٹھیری تیری ادا کہ رک بھی گیا میرا خدا۔‘‘

Comments

Click here to post a comment