میری پیدائش تو سندھ کے شہر خیرپور میرس کی ہے، لیکن ہمارا آبائی گاؤں ضلع جیکب آباد میں تھا۔ خیرپور ہمارے لئے شہر تھا اور جیکب آباد گاؤں۔ وہاں نانا نانی، دادا دادی، خالائیں ماموں اور چاچے چاچیاں تھے اور وہ سب ہم سے بے لوث محبت کرنے والے اور جان نچھاور کرنے والے رشتے تھے۔ اس لئے گاؤں جانا ہمارے لئے عید سے بھی زیادہ پرمسرت ہوتا تھا۔
ہمارا گاؤں جیکب آباد شہر سے دو اسٹیشن پہلے ”آباد“ نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے قریب بہتی ندی ”نور واہ“کے کنارے واقع ہے۔ گاؤں جانے کیلئے ہم خیرپور سے کبھی تو کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی میں سوار ہوتے تھے جو ہمیں جیکب آباد اسٹیشن پر اتار دیتی تھی، یا کبھی اُس زمانے کی مشہور لوکل ٹرین ”لُنڈو“ پر سفر کرتے تھے جو ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکتی جاتی تھی، بلکہ اکثر اسٹیشن کے بغیر ویرانوں میں بھی کھڑی ہوجایا کرتی تھی۔ اس کا ٹکٹ بھی سستاہوتا تھا اور سیٹ کی ایڈوانس بکنگ بھی ضروری نہیں ہوتی تھی، بس ٹکٹ لیں، سوار ہوں اور جہاں جگہ ملے وہاں قابض ہوجائیں۔ہر اسٹیشن پر رکنے کی وجہ سے ہر جگہ کا مسافر اس میں سوار ہوتا تھا۔ یہ چلتی بھی آہستہ تھی اور کہیں کچھ زیادہ مسافر یا دودھ والے اسٹیشن کے بغیر بھی ریلوے لائن کے کنارے کھڑے ہوکر انجن ڈرائیور کو ہاتھ کا ملتجیانہ اشارہ کرتے تو ڈرائیور ان کیلئے بھی گاڑی کی رفتار اس قدر آہستہ کردیتا کہ وہ بھی اچک کر اس پر سوار ہوجاتے تھے۔ پھر جہاں دودھ والے اترتے وہاں انجن ڈرائیور کو چائے کیلئے سیروں دودھ بھی مفت میں مل جاتا تھا۔
خیرپور سے جیکب آباد کے درمیان روہڑی، سکھر، شکارپور اور حبیب کوٹ کے بڑے اسٹیشن آتے تھے۔ روہڑی پہنچنے پر ریل کا انجن اگلے ڈبے سے الگ کر کے پچھلے ڈبے کے ساتھ جوڑ دیا جاتا اور اب ریل گاڑی کو الٹی طرف چلتے ہوئے دریائے سندھ کے لینس ڈاؤن پل کی جانب جانا ہوتا تھا۔ اس عمل میں چونکہ اچھا خاصا وقت لگتا تھا اس لئے گاڑی بہت دیر تک روہڑی اسٹیشن پر رکی رہتی تھی۔ دریائے سندھ کی وسعت پر معلق آہنی لینس ڈاؤن پل پر آتے ہی ریل گاڑی کی آواز ایسی عجیب گونج دار اور بلند آہنگ ہوجاتی کہ ہمیں ڈر تو بہت لگتا لیکن پھر بھی کھڑکی سے سر باہر نکالے ہم نیچے دریا میں تیرتی کشتیوں اور ساحل پر ٹہلتی بھینسوں کا نظارہ دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ دریائے سندھ عبور کرتے ہی سکھر اسٹیشن آجاتا تھا اور پھر بقیہ منزلیں اس کے بعد شام تک۔ خیرپور سے جیکب آباد کا اس دور کا سات آٹھ گھنٹے کا سفر آج ہم اپنی گاڑی میں ڈیڑھ گھنٹے میں پورا کر لیتے ہیں۔
ہم جب کوئٹہ والی ٹرین میں سوار ہوتے تھے تو جیکب آباد اسٹیشن پر اترنا پڑتا تھا کیونکہ وہ ”آباد“ کے چھوٹے ریلوے اسٹیشن پر نہیں رکتی تھی۔ پھر وہاں سے گھوڑا گاڑی یا بیل گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں جاتے تھے۔ لکڑی کے پہیوں والی بیل گاڑی چرخ چوں چرخ چوں کرتی چیونٹی کی رفتار سے چلتی چند میل کا فاصلہ کئی گھنٹوں میں طے کرکے گاؤں پہنچاتی تھی، لیکن اس دیر سے ہم بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ ہم تو ارد گرد کے کھیتوں کھلیانوں، ندیوں تالابوں اور چرندوں پرندوں کے ان نظاروں میں مگن ہوجاتے تھے۔ لہلہاتے کھیت، سرسراتے درخت، تالابوں میں ہلکورے لیتی مرغابیاں، سروں پر منڈلاتی اور چلّاتی ٹٹیریاں، پھڑپھڑاتے کبوتر، ندی کنارے اڑانیں بھرتے بگلے، اجنبیوں کو دیکھ کر بھونکتے کتے، جھینگروں کی چرچراہٹ اور مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ، یعنی وہ سب کچھ جو ہمیں خیرپور شہر کے گلی کوچوں میں میسر نہیں تھا۔
لیکن جب ہم لنڈو ٹرین سے سفر کرکے گاؤں آتے تو جیکب آباد شہر تک جانے کی بجائے آباد ریلوے اسٹیشن پر ہی اتر جاتے کیونکہ وہ وہاں رکتی تھی۔ آباد اسٹیشن سے ہمارا گاؤں گوٹھ امام بخش کیہر دو تین میل کے فاصلے پر تھا اور یہ فاصلہ یا تو ہمیں نور واہ کے کنارے کنارے پیدل چلتے ہوئے طے کرنا ہوتا تھا یا کسی بیل گاڑی میں۔آباد ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم بہت نیچے ہوتا تھا اس لئے یہاں ریل سے اترنے میں بڑی مشکل ہوتی تھی۔ دروازے کے نیچے والے تین تختوں سے اترنے کے بعد بھی زمین اتنی نیچے ہوتی تھی کہ چھلانگ ہی لگانی پڑ جاتی تھی۔ اس پر مستزاد ریل گاڑی کا قدیم اسٹیم انجن کہ جس کی بھیانک آواز سے ہماری جان جاتی تھی۔ خصوصاً اس کی سیٹی کی آواز سے۔
ہم سارے بچے جب تک لڑھکتے پڑھکتے ریل گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم تک پہنچتے، تب تک اسٹیم انجن کی گھگیائی ہوئی بھیانک سیٹی اس قدر بلند آہنگ سے فضا میں گونج اٹھتی کہ اس کی آواز میلوں دُور تک سارے گوٹھوں اور قصبوں میں صاف سنائی دی جاتی اور ہم، جو اس آواز سے چند ہی قدم کے فاصلے پر موجود ہوتے تھے، ہماری تو سٹی ہی گم ہو جاتی تھی۔
لیکن اسٹیم انجن کی اس سیٹی کے ساتھ جو خوف وابستہ ہوتا تھا اس کا تعلق صرف اس کی تیز آواز سے نہیں تھا، بلکہ یہ ایک اور لاشعوری خوف بھی جگاتی تھی…بچھڑ جانے کا خوف … یعنی کہیں یہ ریل گاڑی صرف ہمیں چھوڑ کر اور امّاں ابّا کو ساتھ لے کر چلی گئی تو کیا ہوگا؟ …ہم تو گم ہوجائیں گے؟ …کیا کوئی خرکار ہمیں بوری میں بند کرکے کسی ایسی جگہ لے جائے گا جہاں ہم ساری عمر اس کے گدھے چراتے رہیں گے؟ … بس یہ اور اسی طرح کے کئی دوسرے انہونے خوف، جن کی وجہ سے اسٹیم انجن کی وہ گونجدار سیٹی ہمیں سخت خوف میں مبتلا کر دیتی تھی۔
وہ آج کی طرح کمیونیکیشن کا ترقی یافتہ زمانہ تو تھا نہیں، بس خط لکھنے اور ڈاک پہنچانے کا زمانہ تھا۔ ٹیلی فون تو شاذ و نادر ہی کسی کے پاس ہوتا تھا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ انسان ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی مانند ہوجاتے تھے۔ اس زمانے کی شاعری بھی زیادہ تر بچھڑ جانے اور یاد آنے کے موضوعات پر ہوتی تھی۔ فلموں میں بھی یہی کچھ دکھایا جاتا تھا۔ رابطوں کی کمی کے اس دور میں کسی بچے کا والدین سے جدا ہوجانا زندگی بھر کیلئے جدائی کا سبب بن جاتا تھا اور اپنوں سے جدائی کا سب سے زیادہ امکان اسی ریل کے سفر میں ہوتا تھا۔ اس لئے ریل کی سیٹی ہم بچوں کو دہشت میں مبتلا کر دیتی تھی۔
ان دنوں نہ صرف اخبارات میں روزانہ ”تلاش گمشدہ“ کے اشتہار چھپتے تھے، بلکہ ریڈیو پر گمشدہ بچوں کے حوالے سے ایک باقاعدہ پروگرام بھی چلتا تھا، جس کا عنوان تھا ”یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟“ … اور تقریباً ہر گمشدہ بچہ یہی کہانی سناتا تھا کہ یا تو وہ ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کسی اسٹیشن پر ماں باپ سے بچھڑ گیا تھا، یا کسی بات پر گھر والوں سے ناراض ہوکر ریل گاڑی میں چڑھ گیا اور کہیں کا کہیں پہنچ کر گمشدہ ہوگیا تھا۔ محلے کی مسجدوں سے بھی اکثر کسی نہ کسی بچے کا اعلانِ گمشدگی سنائی دیتا تو چھوٹے بچوں کے ماں باپ بیچارے سہم جاتے۔ بچوں کے اس طرح گم ہونے سے پریشان ہوکر والدین نے بچوں کے گلے میں ایسے تعویذ باندھ دیا کرتے تھےجن کے اندر لپٹے کاغذ پر وظائف کی جگہ گھر کا ایڈریس لکھا ہوتا تھا، تاکہ بچہ گم ہوکر کسی کو ملے تو وہ اس ایڈریس پر اسے واپس پہنچا کر ثوابِ دارین حاصل کرے۔
اب تو وہ دور آگیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے بھی گم ہونا چاہیں تو گم نہیں ہوسکتے۔ پچھلے دنوں دبئی میں ہمارے دوست عمیر صدیقی کا بیٹا ایک شاپنگ مال میں ٹیبلٹ پر ابا کے موبائل ڈیٹا ہاٹ سپاٹ کے وائی فائی سگنلز استعمال کرتے ہوئے اچانک ماں باپ سے بچھڑ گیا۔ امّاں ابّا تو گھبرا ہی گئے لیکن بچہ بالکل نہیں گھبرایا۔ وہ وہیں گھومتے گھومتے ابّا کے گمشدہ وائی فائی سگنل پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور جیسے ہی وہ ابّا کے موبائل سے کنیکٹ ہوا، وہیں اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرکے ڈیڈی ڈیڈی کا شور مچا دیا۔ ابّا لپک کر اس کے پاس پہنچے اور بچے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
تبصرہ لکھیے