جب ہم چھوٹے تھے وہ ہمیں دو طرح کی کہانیاں سناتے تھے۔ جالندھر سے اپنی ہجرت اور پاک بھارت جنگوں کی۔ ہم منہ کھولے بہت اشتیاق سے سنا کرتے تھے۔ دوکوہہ میں اپنے گھر کی چھت پر کیسے مورچہ بنایا تھا اور اس میں پتھر جمع کیے تھے ۔ کیسے بچے سرویلنس کیا کرتے تھے۔
ہندو سکھ اکثریتی ابادی کے گاؤں میں ،
" ساڈا رعب ہوندا سی بیٹے ! اسی ڈری دا نئیں سی۔ مسلمان جذبے نال لڑدا اے، اسلحے نال نئیں " ۔
انہی سے سنا کہ کیسے سن 48 اور پھر 65 میں کشمیر کی وجہ سے لڑائی کا آغاز ہوا ۔ پیرا شوٹ اتارنے اور اپنے فوجی پکڑے جانے کی بات وہ اسی طرح کمال فن سے چھپا لیتے تھے جس طرح مطالعہ پاکستان کی کتابیں فلٹر کیا کرتی ہیں۔ انہوں نے ہی پہلا سبق دیا کہ تاریخ نگاری معروضی نہیں ہوتی۔ اپنے ہیرو خود کیسے تراشے جاتے ہیں۔ اپنے مفاد کا بیانیہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ قومی خودداری اور عزت نفس قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا ہر قوم کا حق ہے۔ 65 کا قصہ یہاں سے شروع ہوتا کہ ابھی گرمی باقی تھی ۔
لوگ چھتوں پر رات کو سوتے تھے اور تین بجے کے قریب سائرن بجنے لگے ۔ صبح ریڈیو سے پتا چلا بھارت حملہ آور ہو گیا ہے اور انہوں نے خبریں چلا دیں کہ لاہور پر قبضہ ہو چکا ہے۔ مال روڈ سے گزرتے تو قائد اعظم لائبریری کا تعارف اولڈ جم خانہ کہ کے یوں کرایا جاتا کہ یہ وہ جگہ ہے جس کے بارے میں بھارتیوں نے غرور میں ڈوبے ہوے کہا تھا کہ شام کی چاے ہم جم خانہ میں پئیں گے۔ ابا خود ملتان میں تھے اور جنگ کے اعلان کے بعد بلیک آؤٹ میں ریل گاڑی پکڑ کے گھر آئے۔ پھر اگلی قسط بی آر بی نہر کی ہوتی۔
ہمارے چند جوان تھے جنہوں نے اتنی بڑی فوج کو روکا۔ ان کے غرور کو توڑا۔ پاکستانی تو جنگ کے لیے تیار نہیں تھے مگر ان سترہ دنوں میں پورے دیس کی کایا پلٹی ہوئی تھی۔ مغربی محاذ گرم تھے۔ چند چھوٹے چھوٹے واقعات سنا کے کہانی کا اختتام ہوتا ،
"یاد رکھو ، جنگیں مرد مومن کے جذبہ جہاد سے لڑی جاتی ہیں ، تعداد اور اسلحے سے نہیں" ۔
ہم ان کے کندھوں پر چڑھ کے کہتے کہ وہ جگہ دکھائیں جہاں آپ نے پینسٹھ اور اکہتر میں فضائی حملوں سے بچاؤ کے لیے خندق کھودی تھی۔ ہنگامی حالات میں پیش بندی کے طور پر کن کن چیزوں کا ذخیرہ کیا تھا۔
بلیک آؤٹ کیا ہوتا ہے ؟
سائرن کیسے بجتے تھے ؟
پھر کہاں پناہ لینی ہوتی تھی؟
کہانیوں میں چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی کا ذکر ہوتا۔ ان کی آنکھیں چمکنے لگتیں۔ فضا میں ہاتھ لہرا کے پورے جوش سے سناتے۔ کیسے کم تعداد میں وہاں موجود سپاہی، اپنے جسموں سے بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔
کبھی لاہور کے دفاع کے بارے میں سنانے لگتے۔ جب ابا نے ہجرت کی تھی تو دادی اماں نے رستے کے لیے پانی کا مشکیزہ اور بھنے ہوے چنے ساتھ رکھے تھے۔ یہ کالے بھنے چنے ابا کی ایمرجنسی کٹ کے تصور میں پیوست ہو چکے تھے۔ جب بھی کہیں جنگ کے سائے بڑھتے دکھائی دیتے ، ابا خشک چنے فراہم کر لیتے۔ ہم بہتیرا تڑپتے کہ پاکستان میں اب قسما قسم کی خشک اشیا اور مزے دار سنیکس دستیاب ہیں مگر ان چنوں کا مرتبہ کسی طور کم نہ ہو سکا۔
جب ہم فیروز پور روڈ سے اپنے تایا کے گھر قصور کی جانب واقع کاہنہ جاتے تو چونگی امرسدھو گزرتے ہی سب تیار بیٹھ جاتے۔ ابو کی کہانی شروع ہوتی۔ انڈیا نے کیسے لاجسٹک لائن کاٹنے کی کوشش کی۔ لاہور سے قصور کے بارڈر تک جنگ پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی کوشش تھی فیروز پور روڈ پر ہڈیارہ نالے کا پل تباہ کر دیں تاکہ فوجیوں ، توپوں اور ٹینکوں کی نقل و حرکت متاثر ہو جاے۔ جہاز اس قدر نیچے آئے تھے۔ یوں گولہ مارا لیکن وہ پل کی بجاے ، نالے کے کنارے جا گرا۔
" یہ رہا گڑھا " ، ہم نالے کنارے اترتے ، بڑی عقیدت سے گڑھا دیکھتے۔ وہاں کوئی فوجی ٹرک یا خیمہ ہوتا تو سب بچے قطار میں کھڑے ہو کے وردی پوش سپاہیوں سے ہاتھ ملاتے ، سیلوٹ کرتے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ابا کی پر جوش آواز پر سر دھنتے۔
" مرد مسلمان جب خدا کی راہ میں نکلتا ہے ، اس کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں۔ دشمن اتنا نیچے تھا۔ جہاز بس اس کھمبے سے ذرا ہی اونچا تھا۔ "
ہمارے تصور کے گھوڑے ساتھ ساتھ دوڑتے۔ بجلی کی تار کے اوپر بھارتی جہاز دیکھتے۔
"بتاؤ کس نے اس بم کو پل کی بجاے اتنے گز دور ادھر گرایا ؟" فرشتوں نے۔
ہمارا یقین تھا کہ ہمارے مجاہدوں کے ساتھ فرشتے لڑا کرتے ہیں۔ اور کوئی انسان فرشتوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ لاہور چھاؤنی جاتے ۔ ایم ایم عالم روڈ سے گزرتے تو ایک انتہائی محیر العقول فئیری ٹیل سنائی جاتی۔مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے اکیلے کیسے انڈیا کے جہاز گراے۔
ورلڈ ریکارڈ ہے ورلڈ ریکارڈ۔.... ایک منٹ میں سیبر نے سات ہنٹر گرا دیے۔ ہمارے ہیرو تشکیل ہوتے رہے۔
ہم کچھ بڑے ہوے تو ان کہانیوں میں قرآن مجید کا حوالہ شامل ہو گیا ،
"یاد رکھنا ، اللہ پاک نے فرمایا ہے ، ایک مومن دس کافروں پر بھاری ہے "۔
مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ دیکھ لو۔ کہیں بھی انہیں عددی برتری حاصل نہیں رہی۔ ہاں خدا کی نصرت اور تائید۔ ایک سپاہی جب اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا ہے ،
" کافراں دے دلاں تے رعب پے جاندا اے۔ ایں یرکدے نیں "
ان کا بازو لہراتا اور پھر "یرکنے " کی وژول ڈیمنسٹریشن ہوتی۔ اب وہ جنگوں کے تجزیے بھی کرنے لگتے۔
" مسلمانوں کو لڑائی کے میدان میں کوئی شکست نہیں دے سکتا کیونکہ وہ موت کے خوف سے آزاد ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ جیت گئے تو غازی ، اور جان سے گزر گئے تو شہید۔ شہید تو زندہ ہوتا ہے "
ساتھ ساتھ اس میں پنڈت اور بنیے کی ذہنیت اور کردار کا تجزیہ ہوتا۔ اگر کوئی اچھا ذکر کرتے تو پنڈت کہتے اور برائی کرنی ہوتی تو بنیا۔ اسی اکو ای گلی اچ رہندے سی .... لہذا اس عینی و عملی مشاہدے کی بنا پر وہ مول تول اور تجارت میں ہشیاری کو ہندوؤں کا trait گردانتے۔ چانکیہ کے پیروکار مکاری سے سیاست کرتے ہیں۔ مسلمان سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ کبھی کہا کرتے ، لڑائی کے میدان میں نہ ہارنے والے آپس کے انتشار اور اختلاف سے مار کھاتے ہیں۔ باہر کے دشمن کو زیر کرنے والے اندر سے کسی خنجر سے گھائل ہو جاتے ہیں۔ میدان کی فتح کو مذاکرات کی فتح میں بدلنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ جیتی جنگیں میزوں پر ہار جاتی ہیں۔
امی سورہ انفال سناتیں کہ آپس میں مت جھگڑو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جاے گی۔ پھر اکہتر کی جنگ کی شکست کی وجوہات میں قوم کی آپس کی بے اتفاقی اور خدا کی بجاے امریکی بیڑے پر انحصار جیسی مثالیں ہوا کرتیں۔ شہری دفاع کے بنیادی اصول ، باقاعدہ کورس کرنے سے پہلے گھر میں موجود ان کتابچوں سے حاصل کیے جو انہوں نے سبقا سبقا پڑھاے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنی بیٹیوں کو ابتدائی فوجی ٹریننگ دلوا دیں۔ بندوق کے اجزا بتاتے۔ شست باندھنے ، ہدف کا نشانہ لینے جیسی باتوں کی وضاحت کرتے۔ خود ان کا نشانہ بہت اچھا تھا۔
ابا کے زمانے میں مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا تھا نہ انہیں نسیم حجازی کے ناولوں سے کوئی دلچسپی تھی۔ نظریہ پاکستان اور جداگانہ قومیت کے عناصر وجودی انہوں نے اپنی عملی زندگی میں سیکھے اور برتے تھے۔ انہوں نے کبھی ہمیں فتح و نصرت میں بابوں کی کارفرمائی کی کہانیاں نہیں سنائی تھی۔ صرف یہ بتایا تھا کہ مادی اسباب کے ساتھ ایک عالم غیب بھی برابر کام کرتا ہے جہاں کے اصول قاعدے ہماری حسی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ جہاں روح کے تجربے ، دل کے جذبے ، ایمان و یقین کے ترازو پر فیصلے ہوتے ہیں ۔
پھر ہم بڑے ہو گئے۔ ابا کی کہانیوں پر سوالات اٹھانے لگے۔ ابا! ٹیکنالوجی بڑی چیز ہے۔ پروجیکٹائل موشن ، ہوا کا دباؤ ، فضا میں درجہ حرارت اور سپیڈ بم گرنے ، نہ گرنے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سوالات بحث میں بدلنے لگے۔ ابا کی سب باتیں اگلے وقتوں کی خرافات معلوم ہوتیں۔ غلطیاں تو اپنی تھیں۔ بغیر تدبیر کے جنگ شروع کی۔ بغیر کچھ حاصل کیے تاشقند اور شملہ میں جنگ ہار دی۔اکہتر میں فوج الگ تھی عوام الگ تھے۔ عوامی راے کا احترام کرنا چاہیے تھا ۔ یہ جہاد کیا ہے ؟ سرحد کے اس طرف بھی ذاتی مفاد ہے اُس طرف بھی ذاتی مفاد ہیں۔ عوام دونوں طرف پس رہے ہیں۔ آخر وہ زچ ہو جاتے۔ " ایہہ گلاں تہاڈیاں عقلاں اچ نئیں آنیاں۔۔۔ "
ہم کہانیوں کی عمر سے بڑے ہو چکے تھے۔ ابا بحث پسند نہیں کرتے تھے۔ آخر وہ خاموش رہتے۔ ہم اپنی دانش ، عقل ، تجزیے اور استدلال کے غرور میں فاتحانہ مسکراتے۔ تاریخ کو اپنی خود اعتمادی کی عینک لگا کے دیکھنے کی بجاے "ابجکٹو نیریٹو " کی مالا جپتے۔ ہمارے بچپن کے معصوم یوٹوپیا پر منطق کے دبیز پردے پڑ گئے۔ پھر بہت سی جنگیں گزریں۔ افغانستان اور روس کی لڑائی ، عراق ایران کی جنگ ، کارگل کی جنگ ، امریکا اور افغانستان ۔
ابا نے جنگوں کی کہانیاں کہنی ترک کر دیں۔ مجاہدوں کا کردار بتانا چھوڑ دیا۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا تخیل اپنے ساتھ ہی لیے ، ایک شام بالکل خاموش ہو گئے۔۔۔
سالوں پر سال گزر چکے۔ وقت آگے بڑھ گیا مگر اب ان دنوں یہ کیا ہو رہا ہے۔ ویسے ہی ہرے بھرے کھیت ہیں ۔ اسی طرح فوجی اور عامی، ایک سا انداز ، ہلکی گن لیے اوپر سے آتے ڈرون کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کھیتوں میں فوجی ٹرک کھڑا ہے ۔ ارد گرد پاکستانی لڑکے اسی طرح گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں جیسے ہم ابا کے گرد بیٹھے کہانیاں سنا کرتے تھے۔ میزائل فائر ہو رہا ہے۔ نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔ کوئی ڈر ہے نہ خوف۔ ...عقل ہے نہ منطق....
" کانھم بنیان مرصوص ۔ ایمان ، تقوی ، جہاد فی سبیل اللہ!! "
جنگ بندی کے بعد چھوٹی بہن چند گھنٹوں کے لیے اپنے فضائی مرکز سے نکل کے آئی تو جشن تشکر کی مٹھائی کھاتے ، میں نے پوچھا ،
"تمہارے یہاں کیا کیفیت ہے ؟ شاہین کیا سناتے ہیں ؟ "
"آپا ! اتنی بات کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ دن رات تو وہاں مصروف ہیں۔ بس ایک دفعہ آئے تو اتنا کہ رہے تھے کہ ان کا صحیح بھی غلط ہو رہا تھا اور ہمارا غلط بھی جا کے ہٹ کر رہا تھا ۔ ہزاروں فٹ کی بلندی پر صرف ہم نہیں تھے ، کوئی ان دیکھی طاقت بھی اپنے ساتھ محسوس ہوتی رہی "
یقین اور جذبہ ! صحرا است کہ دریا است تہ بال و پر ما است
جب حملے کے بعد پریس بریفنگ کے دوران میں ان اونچائیوں پر گونجتی ایک آواز سنائی دی ، " میری ماں کے نام ! "
میرے دل پر ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ، " میرے باپ کے نام ! ابا ! ہم تو ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ "
ـــــــــــ
ابا کی جھلی بیٹی،
تیم شاہ
#بنیان مرصوص
TS
تبصرہ لکھیے