جب روایتی میڈیا میں میزائلوں کی گھن گرج اور سرحدی جھڑپوں کی خبریں سرخیاں بنتی ہیں، تو ایک اور جنگ پسِ منظر میں شدت اختیار کر رہی ہوتی ہے — ایک ایسی جنگ جو نہ دکھائی دیتی ہے، نہ سنائی دیتی ہے، مگر اس کے اثرات قوموں کے مستقبل پر براہِ راست مرتب ہوتے ہیں۔
یہ جنگ ٹیکنالوجی پر مبنی جنگ ہے — جہاں میدانِ جنگ نہ زمینی ہے، نہ فضائی، بلکہ ڈیجیٹل ہے۔ اس جنگ میں کوڈز، الگورتھمز، مصنوعی ذہانت، سیٹلائٹ، اور سائبر حملے وہ ہتھیار ہیں جو خاموشی سے دشمن کے نظاموں کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ اس جنگ کی خاموشی ہی اس کی سب سے بڑی خطرناک خوبی ہے۔ بغیر کسی اعلان کے، دشمن کی مالیاتی معلومات چوری ہو سکتی ہیں، حساس دفاعی ڈیٹا افشا ہو سکتا ہے، یا عوام کے ذہنوں میں پراپیگنڈا بویا جا سکتا ہے۔ اور بدقسمتی سے، یہ جنگ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے — خبروں میں آئے بغیر، مگر قوموں کے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے۔
جنگ کا نیا میدان سائبر اسپیس ہے۔ جہاں روایتی جنگوں میں فوجی، ہتھیار اور ٹینک میدان میں نظر آتے ہیں، وہاں سائبر وار ایک ایسا محاذ ہے جس میں دشمن نظر نہیں آتا — صرف اس کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ مئی 2025 میں حالیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے دوران پاکستان سے منسلک ہیکر گروپس نے بھارت پر پندرہ لاکھ سے زائد سائبرحملے کیے اورمتعدد بھارتی ویب سائٹس اور سسٹمز کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں مالیاتی ادارے، توانائی کا شعبہ، اور ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر شامل تھا۔ "ڈانس آف دی ہیلری" جیسے مالویئرز نے بھارتی صارفین کے موبائل فونز اور حساس ڈیٹا کو نشانہ بنایا گیا۔ ، جس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ جنگ اب صرف ریاستی اداروں تک محدود نہیں رہی — یہ ہر فرد کی جنگ بن چکی ہے۔ یہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ سائبر اسپیس میں جاری جنگ نہ صرف انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ عوام کی ذاتی معلومات اور قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
آج کی دنیا میں جنگ صرف گولیوں اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ ڈیٹا، الگورتھمز اور مشین لرننگ ماڈلز سے بھی دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت اب ایک اسٹریٹیجک ہتھیار بن چکی ہے — اور پاکستان و بھارت دونوں اسے تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ آج کی جنگوں میں بیانیہ ہتھیار بن چکا ہے، اور مصنوعی ذہانت اس بیانیے کو تشکیل دینے کا سب سے اہم ذریعہ۔ بھارت نے اے آئی کو قومی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے جبکہ پاکستان میں اے آئی پر کام ہو تو رہا ہے مگر سست روی کا شکار ہے۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز اس خاموش جنگ کے موئثر ترین ہتھیار ہیں۔ فیشل ریکگنیشن سے شناخت، ڈیپ فیک ویڈیوز سے سیاسی پراپیگنڈا، سینٹیمنٹ اینالسزجیسے اے آئی الگورتھمز صرف معلومات اکٹھا نہیں کرتے، بلکہ عوامی جذبات کو مانیٹر کر کے بیانیہ بناتے، جذبات بھڑکاتے، اور ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں۔
اے آئی اب صرف تحقیق کا شعبہ نہیں رہا — یہ بیانیے، نگرانی، اور جنگی حکمتِ عملی کا مرکزی ہتھیار بن چکا ہے۔ پاکستان کو اس میدان میں سنجیدہ سرمایہ کاری کر کے اپنی ڈیجیٹل خودمختاری کو مضبوط کرنا ہوگا، ورنہ مستقبل کی جنگیں بغیر گولی چلائے ہار دی جائیں گی۔ قومی اداروں، جامعات اور نجی شعبے کو مل کر ایسی حکمتِ عملی بنانی ہو گی جو مصنوعی ذہانت کو ایک مؤثر دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکے۔ اے آئی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی جنگ کا ایک مہلک ہتھیار بن چکا ہے۔ جہاں فوجیں سرحدوں پر تعینات ہوتی ہیں، وہاں سوشل میڈیا پر جنگی محاذ ہر فرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جنگ اب صرف میدانوں میں نہیں، موبائل اسکرین پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، یوٹیوب اور واٹس ایپ اب محض رابطے کے ذرائع نہیں رہے — یہ ریاستی بیانیے، جھوٹے دعوے، اور عوامی جذبات کو قابو کرنے کے مراکز بن چکے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ کا مقصد فوج کو نہیں بلکہ عوام کے ذہن کو قابو میں لانا ہوتا ہے۔ یہ بیانیے، معلومات تک رسائی اور پراپیگنڈے کا سب سے مؤثر ہتھیار بن چکے ہیں۔
بھارت میں فیک نیوز اب باقاعدہ ایک صنعتی شعبہ بن چکا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز نے فیک نیوز کی ایک ایسی مہم چلائی جو خود ان کی قوم کے لیے باعثِ شرمندگی بن گئی۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا گیا کہ بھارتی فضائیہ نے لاہور کا سی پورٹ تباہ کر دیا — حالانکہ لاہور ایک مکمل طور پر خشکی والا شہر ہے جہاں سمندر کا دوردور کوئی نام ونشان نہیں۔ ہاں البتہ ایک دریا شہر کے ساتھ موجود ہے مگر اس میں پانی نا ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح جعلی ویڈیوز، پرانی تصویریں، اور ویڈیو گیم کے مناظر کو حالیہ فضائی کارروائی بنا کر پیش کیا گیا، تاکہ بھارتی عوام کو "فتح" کا احساس دیا جا سکے۔ اینکرز نے بغیر تصدیق کے سنسنی پھیلائی اور جھوٹ کو حب الوطنی کا رنگ دے کر بیچا۔ لیکن پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور باشعور صارفین نے ان تمام جھوٹے دعووں کو نہ صرف فوری رد کیا بلکہ ثبوت کے ساتھ دنیا کو سچ دکھایا۔ اس پوری صورتِ حال نے یہ ثابت کر دیا کہ جب بیانیہ جھوٹ پر کھڑا ہو، تو وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتا — اور بھارت اس جنگ میں اپنی ہی بنائی گئی فیک نیوز کی دیوار کے نیچے دب گیا۔
پاکستانی سوشل میڈیا وارئیرز کی کارکردگی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بیانیے کی جنگ میں عوامی شرکت اور ڈیجیٹل صلاحیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں نے فیک نیوز کو بے نقاب کیا، دشمن کی نفسیاتی حکمتِ عملی کو سمجھا، اور سچ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا۔ ان کی کوششوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان صرف ہتھیاروں سے نہیں، دلیل اور بصیرت سے بھی اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔ ہیش ٹیگ مہمات، وائرل ویڈیوز، فوری تجزیاتی ردعمل، اور غیر جانب دار ڈیٹا کی بنیاد پر جواب — یہ تمام عناصر آج پاکستان کے ڈیجیٹل دفاع کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ جنگ صرف میزائلوں سے نہیں جیتی گئی، قلم، کیمرہ، اور کلک نے بھی وہ کام کیا جو توپیں نہیں کر سکتیں۔ نفسیاتی جنگ کا مقصد کسی دشمن کے جسم پر نہیں، ذہن پر حملہ ہوتا ہے۔ جب عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے، اداروں پر شکوک جنم لیں، اور قوم کو سچ اور جھوٹ میں تمیز نہ رہے — تب دشمن کامیاب ہوتا ہے۔ یہی جنگ بھارت نے سوشل میڈیا پر لڑنے کی کوشش کی، لیکن پاکستان نے اسے بروقت سمجھا، اور اس کا جواب اجتماعی بیانیے، قومی اتحاد اور ڈیجیٹل شعور سے دیا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس بیانیے کو ایک پالیسی کی شکل دی جائے۔ پاکستان کو ایسی ڈیجیٹل حکمتِ عملی ترتیب دینی ہو گی جو فیک نیوز، جھوٹے پراپیگنڈے اور نفسیاتی اثراندازی کا مؤثر، مربوط اور دیرپا جواب دے سکے — نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ عالمی رائے عامہ میں بھی۔ جنگ صرف میدان میں لڑنے اور جیتنے کا نام نہیں، اسے برقرار رکھنا اور مستقبل کے معرکوں کے لیے خود کو تیار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری ٹیکنالوجی وار میں ایک بڑا فرق پالیسی، سرمایہ کاری، اور ریاستی وژن کا ہے۔ بھارت نے گزشتہ دو دہائیوں میں ٹیکنالوجی کو ریاستی ترجیحات میں شامل کر کے اسے اپنی عسکری اور سیاسی طاقت کا حصہ بنا لیا۔ پاکستان میں اس حوالے سے سوچ بیدار تو ہوئی ہے، لیکن عملدرآمد کی رفتار اب بھی سست ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں ترقی ضرور ہوئی ہے، لیکن وہ زیادہ تر فری لانسنگ اور آؤٹ سورسنگ تک محدود ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب پاکستان کو قومی سطح پر ایک مربوط اور طویل المیعاد ٹیکنالوجی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ایسا فریم ورک جس میں سائبر سیکیورٹی، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل ڈپلومیسی، اور علاقائی تکنیکی اتحاد شامل ہوں۔ ایک ایسا ماڈل جس میں پاکستان صرف ٹیکنالوجی صارف نہ ہو، بلکہ تخلیق کار کے طور پر ابھرے۔
جدید جنگی حکمتِ عملی میں آسمان پر نظر رکھنا زمین پر برتری حاصل کرنے سے بھی زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیٹلائٹ اور خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی خاموش مگر شدید مقابلہ جاری ہے۔ بھارت کا خلائی ادارہ انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن ایشیا کے سب سے متحرک خلائی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ بھارت نے اپنے دفاعی اور جاسوسی نظام کو خلائی سطح پر بھی مؤثر بنا لیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا خلائی ادارہ سپارکو سائنسی اعتبار سے فعال تو ہے مگر رفتار میں محدود رہا ہے سپارکو نے کچھ عرصہ پہلے چین کے تعاون سے پہلا مواصلاتی سیٹیلائٹ لانچ کیا۔ پاکستان تاحال فوجی نگرانی اور جاسوسی میں سیٹلائٹ ڈیٹا کے لیے چین یا دیگر ممالک پر انحصارکرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن بھارت کے مقابلے میں خود مختاری اور لانچنگ صلاحیت میں خاصا فرق ہے۔ خلاء میں برتری اب صرف سائنسی فخر نہیں بلکہ اسٹریٹیجک ضرورت بن چکی ہے۔ بھارت نے اس میدان میں جارحانہ برتری حاصل کر لی ہے، جب کہ پاکستان کو چین جیسے اتحادیوں سے تعاون لیتے ہوئے اپنی خود مختار سیٹلائٹ صلاحیت کو ترقی دینا ہو گا۔ یہ جنگ صرف بھارت سے نہیں، وقت سے ہے۔ اور وقت اس قوم کے ساتھ ہوتا ہے جو آگے دیکھتی ہے، جو صرف ردِعمل نہیں دیتی، بلکہ پیش بندی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان نے حالیہ جنگ میں دشمن کو مؤثر جواب دیا، لیکن اصل فتح تب ہو گی جب ہم دنیا کے سامنے اپنی تکنیکی خودمختاری، ڈیجیٹل نظریہ اور قومی بیانیے کو ایک مکمل ریاستی حکمتِ عملی میں ڈھال کر پیش کریں گے۔
حالیہ جنگی تناؤ میں پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت، حکمتِ عملی اور تکنیکی صلاحیت کا وہ عملی مظاہرہ کیا جو نہ صرف دشمن کے لیے حیران کن تھا بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک غیر متوقع پیغام تھا۔ تین فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے، جنہیں بھارت نے فضائی برتری کی علامت کے طور پر خریدا تھا، پاکستان کے جے-10 سی طیاروں نے فضا میں ہی نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔ یہ وہی طیارے تھے جن کے متعلق بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے دفاعی نظام کو چیر کر رکھ دیں گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ دوسری طرف، دنیا کا سب سے جدید فضائی دفاعی نظام سمجھا جانے والا روسی ساختہ ایس-400 بھی پاکستان کے ہاتھوں غیر مؤثر ثابت ہوا۔ جے ایف-17 تھنڈر، جو پاکستان اور چین کا مشترکہ شاہکار ہے، نے ایک مربوط سائبر، الیکٹرانک جیمنگ اور اسٹیلتھ حکمتِ عملی کے ذریعے نہ صرف اس سسٹم کو چکما دیا بلکہ مؤثر انداز میں اسے نشانہ بھی بنایا۔ یہ کامیابی صرف تکنیکی نہیں تھی — یہ ایک نفسیاتی برتری تھی جس نے بھارت کی عسکری ساکھ کو چیلنج کیا. لیکن سب سے بڑی فتح کسی ہتھیار یا ٹیکنالوجی کی نہیں تھی، بلکہ پاکستانی قوم کے جذبے کی تھی۔ اس پوری مہم میں ایک بات نمایاں رہی: پاکستانی افواج، انجینئرز، سائبر ماہرین، اور عام شہریوں کے درمیان ایک ناقابل شکست ہم آہنگی۔ جذبۂ حب الوطن نے ہر فرد کو ایک محاذ پر کھڑا کر دیا۔ یہ وہ قوت تھی جو کسی بجٹ سے نہیں، ایمان اور شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو کسی بھی قوم کو نہ صرف دفاع کا اہل بناتا ہے بلکہ اسے قیادت کے مقام تک لے جاتا ہے۔
اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان اب محض ردعمل دینے والا ملک نہیں رہا۔ ہم نے بیانیہ بھی بنایا، ہم نے میدان بھی جیتا، اور ہم نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ جدید جنگوں میں نہ صرف ہتھیار بلکہ وژن، سچائی اور قومی غیرت بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس فتح کو پائیدار قومی پالیسی میں بدلے، اپنی دفاعی سوچ کو ڈیجیٹل دور کے مطابق اپ گریڈ کرے، اور ایک ایسی قیادت ابھارے جو نہ صرف دشمن کا مقابلہ کرے بلکہ خطے کے امن اور ترقی کی راہ بھی متعین کرے۔
تبصرہ لکھیے