اگر ایک تصویر، ہزاروں لفظوں پر بھاری ہو سکتی ہے تو یہ تصویر ہزاروں کتابوں، خطبات، ڈاکومنٹریز پر بھاری ہے اور دنیا میں اصل سچ کا پتہ دیتی ہے جو ڈنڈا اور طاقت ہے، باقی جواز تراشنے کے لیے بے شمار لکھنے والے موجود ہیں.
بس یوں سمجھیں یہ امریکی صدر کا اسامہ بن لادن کے ساتھ ایک شاندار پوز ہے. سچی بات تو یہ ہے کہ کہ بن لادن اگر واقعی کسی ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو ابھی تک زندہ ہوتا اور شاید سفارتی پروٹوکول لے رہا ہوتا. ریاض کے شاہی محلات میں عالمی سیاست کا ایک ایسا ڈرامہ کھیلا گیا ہے جس کی گونج کئی دہائیوں تک سنائی دے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی میزبانی میں، شام کے اُس عبوری رہنما، احمد الشراع (المعروف ابو محمد الجولانی) سے بغل گیر ہوئے ہیں، جس کا ماضی القاعدہ کی کمان سے جڑا ہے۔
یہ ملاقات محض ایک سفارتی مصافحہ نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے ریتلے میدانوں میں طاقت کے توازن، پرانی دشمنیوں اور نئی وفاداریوں کی ایک بالکل نئی، اور شاید زیادہ خطرناک، بساط بچھانے کا اعلان ہے۔
الجولانی، جو کبھی عالمی جہادی تحریک کا ایک اہم مہرہ سمجھا جاتا تھا، آج دمشق کے تخت پر ’عبوری حکمران‘ کے طور پر براجمان ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف شام پر عائد تمام امریکی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا ہے، بلکہ اسے "ایران اور اسلامی انتہا پسندی دونوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار" ایک ’نئے اتحادی‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ الشراع نے بھی حسبِ توقع استحکام، اقلیتوں کے تحفظ اور خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کی مخالفت کے بلند و بانگ دعوے داغے ہیں۔ یہ ’تبدیلیِ قلب‘ اور ’نظریاتی یوٹرن‘ کیا واقعی کسی حقیقی تبدیلی کا عکاس ہے، یا پھر عالمی طاقتوں کی شطرنج کا ایک نیا، آزمودہ مہرہ؟
اس سارے کھیل میں ترکی اور سعودی عرب نے الجولانی کو اقتدار کی راہداریوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پسِ پردہ اطلاعات یہی ہیں کہ اسرائیل نے بھی اس تبدیلی کو اس امید پر قبول کیا کہ دمشق میں ایک ایران مخالف حکومت اس کے تزویراتی مفادات کے لیے سودمند ثابت ہوگی۔ تاہم، اپنی پرانی روش برقرار رکھتے ہوئے، اسرائیل نے رسمی طور پر اس ملاقات پر ’تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ "علاقائی دہشت گرد نیٹ ورکس" نئے ناموں اور نئی شناختوں کے ساتھ دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں۔
یہ اسرائیلی ’ڈبل گیم‘ کوئی نئی بات نہیں؛ وہ ہمیشہ ایسے علاقائی تبدیلیوں کی خاموش حمایت کرتا ہے جو ایران کو کمزور کریں، مگر بعد میں عالمی برادری اور اپنے عوام کے سامنے ایک ’مظلوم‘ اور ’محتاط‘ ریاست کا تاثر برقرار رکھنے کے لیے رسمی احتجاج بھی ریکارڈ کرواتا ہے۔
واشنگٹن میں بیٹھے کئی پنڈت اور ناقدین اس ملاقات کو "جہادی سیاست کی بحالی" اور عالمی اصولوں کی پامالی قرار دے رہے ہیں۔ مگر کچھ حقیقت پسند مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامائی تبدیلی کسی نظریے کی جیت یا ہار سے زیادہ زمینی حقائق، طاقت کے بدلتے ہوئے توازن اور سب سے بڑھ کر، کھربوں ڈالر کے ان معاشی معاہدوں کا نتیجہ ہے جو اس ملاقات کے سائے میں امریکہ اور سعودی عرب کے مابین طے پائے۔
سعودی عرب کا امریکہ کے ساتھ یہ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کا ’معاشی جوا‘، جس میں دفاع، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بے پناہ سرمایہ کاری شامل ہے، دراصل خطے میں سعودی اثر و رسوخ کو ایک نئی، فیصلہ کن شکل دینے اور امریکی چھتری تلے اپنے علاقائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔
امریکی وفد بار بار یہ راگ الاپ رہا ہے کہ "اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی امریکہ کی غیر متزلزل ترجیح ہے" اور یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ "ایران کا مخالف شام، علاقائی امن کے لیے ناگزیر ہے۔" صدر ٹرمپ کا آئندہ دورہ دوحہ اور ابوظہبی بھی اسی نئے ایران مخالف علاقائی بندوبست کو مزید مستحکم کرنے کی کڑی ہے۔ تاہم امریکہ سعودی گریٹ گیم چین کے اثرورسوخ کو بھی روکنے کی ایک کڑی ہے اور اسرائیل کے تزویراتی مفادات اور اس کا ’تحفظ‘ ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں! اور یہ کہانیاں کہنے والے بھی بدلتے رہتے ہیں.
تبصرہ لکھیے