دن ڈھل رہا تھا۔ وقت کی سوئیاں تھکن سے رک رک کر چل رہی تھیں۔ کمرے کی کھڑکی سے آتی سورج کی آخری روشنی ایک پرانی میز پر رکھی کتابوں، پرانی تصاویر، اور ایک چمڑے کی جلد میں بند ڈائری پر بکھری ہوئی تھی۔ باہر کی دنیا میں شاید شام ہو رہی تھی، مگر فیروزہ بیگم کے دل میں رات بہت پہلے اتر چکی تھی۔
اس کمرے میں، وقت تھم سا گیا تھا۔
یہ کمرہ اُس کی تنہائی کا ساتھی تھا۔ دیواروں پر چند دھندلی سی تصویریں تھیں، کچھ چہروں کے ساتھ جنہوں نے وقت کے ساتھ اپنی شناخت کھو دی تھی۔ میز پر رکھی وہ ڈائری، جسے اس نے برسوں سے کسی کو نہیں دکھایا تھا، آج ہاتھوں میں تھی۔ مگر آج معاملہ مختلف تھا۔ آج اُس کے سامنے کوئی عام سامع نہیں بیٹھا تھا، آج ایک ایسا شخص تھا، جو صرف لفظ پڑھنے نہیں آیا تھا وہ سمجھنے آیا تھا۔
"آپ نے کہا تھا آپ صرف سنیں گے نہیں، سمجھیں گے بھی۔" فیروزہ بیگم نے شکستہ لہجے میں کہا۔
سامنے بیٹھا وہ اجنبی مسکرایا، نہایت نرمی سے بولا:
"سننے والوں کی دنیا میں سمجھنے والا مل جائے تو شاید رب کے بعد وہی سب سے بڑا سکون ہے۔"
فیروزہ نے ڈائری کھولی۔ صفحے زرد تھے، روشنائی مدھم، مگر جذبات اتنے ہی تازہ جیسے ابھی ابھی دل سے نکلے ہوں۔
"صفحہ اول:
محبت… میں نے جب بھی چاہی، ایک سوال بن کر آئی۔
جب بھی پائی، امتحان بن کر رہی۔
میں نے جب بھی دل کھولا، لوگ لفظ پڑھ کر لوٹ گئے۔
مگر میرے درد کے حروف کسی کی آنکھوں سے نہ گزر سکے۔
فیروزہ بولی، "یہ پہلی تحریر تب کی ہے جب میں صرف 19 برس کی تھی… محبت سے پہلا سامنا ہوا تھا۔"
"محبت سے؟ یا تنہائی سے؟" اجنبی نے سوال کیا۔
فیروزہ چونک گئی، اور پھر مسکرا دی۔ "تم سمجھ گئے… واقعی تم سمجھنے آئے ہو۔"
ڈائری کے ہر صفحے پر ایک زندگی تھی۔ کہیں وفا کا وعدہ، کہیں بےوفائی کا گلہ۔ کہیں ماں کی ممتا، کہیں بیٹی کی بےبسی۔ شوہر کی بے رخی، اولاد کی مصروفیت، دوستوں کی خودغرضی، اور خود سے خود کی چھوٹی چھوٹی جنگیں۔
"صفحہ 46:
کبھی دل چاہا، کوئی ایسا ہو
جو خاموشی سے میرے آنسو پی جائے
میرے لفظوں سے پہلے میری کیفیت پڑھ لے
میں من کی کتاب کھولوں اور وہ کہے:
‘میں پہلے ہی سب جانتا ہوں
"جانتے ہو، میں نے برسوں دعا کی، کہ کوئی ملے جو مجھے سمجھ سکے۔ لفظوں کے بغیر، سچ کے ساتھ، میری ‘میں’ کو۔"
"شاید رب نے آج دعا سن لی،" اجنبی نے آہستہ سے کہا۔
چند لمحے خاموشی میں ڈھل گئے۔ خاموشی… جو بہت کچھ کہہ گئی۔
"یہ آخری صفحہ ہے،" فیروزہ نے کہا۔ "اس پر کچھ نہیں لکھا… کیوں کہ میں چاہتی تھی کہ کوئی اسے پڑھ کر خود لکھے۔"
اجنبی نے قلم اٹھایا، ڈائری کا آخری صفحہ کھولا، اور لکھا:
"صفحہ آخر:
میں وہ ہوں، جو تمھارے لفظوں میں نہیں
تمھارے احساس میں جیتا ہوں
میں نے نہ صرف تمھاری تحریر پڑھی
تمھارا درد چُھوا، اور تمھاری خاموشی سنی
میں تمھارے لفظوں کا مسافر ہوں
اور یہ سفر ختم نہیں ہوگا
یہیں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔"
فیروزہ بیگم نے آنکھیں بند کر لیں۔ برسوں بعد، اسے لگا کہ اس کی من کی کتاب کسی کے دل میں اتر گئی ہے۔
یہ افسانہ ختم نہیں ہوا
یہ وہ لمحہ تھا جہاں ایک زندگی نے دوسری زندگی کو سمجھا،
بغیر کسی رشتہ، بغیر کسی شرط…
صرف ایک "فہم" کے بندھن میں۔
تبصرہ لکھیے