ہم "جین وائے" والے کائنات کی سب سے کنفیوزڈ مخلوق ہیں۔
ہمیں کنفیوز کیا گیا۔ اب اللہ جانے یہ جان بوجھ کر تھا کہ ان جانے میں۔
ہم نے سنا کہ "ویکھ پرائی چوپڑی ، نہ ترساویں جی"۔
پھر پڑھا کہ "قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں" ۔
ایک طرف منبر پر، ٹی وی پر ہر طرف بیٹھے مولوی نے فقر کو گلوریفائی کیا ، دوسری طرف قاسم علی شاہ اور ان جیسے کئی ایک نے موٹیویشن دی کہ آگے بڑھو ورنہ زمانہ کچل ڈالے گا۔
زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور ہم متضاد گیان کی گنجلکوں میں پھنسے رہ گئے۔
مکاتیب فکر کی بہتات سے سامنا رہا ، سبھی اپنی اپنی جگہ ٹھیک لگتے ہیں ۔ بانو قدسیہ اپنی جگہ ٹھیک ہے کشور ناہید بھی سارا غلط تو نہیں لکھتی ۔
بابے کچھ کہتے ہیں، شاعر کچھ۔
ہمارے استاد بے چارے خود کئی مخمصوں کا شکار تھے ہمارے اذہان کو کلئیر کہاں کرتے ؟
ہم نے کبھی واصف علی واصف کا دامن تھاما تو کبھی تصوف کو گمراہ کن قرار دینے والا کوئی حقیقت پسند ٹکرا گیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے میں ورق الٹ رہی تھی تو ایک معروف رسالے کے ایک صفحے پر تحریر تھی کہ دولت روزِ قیامت گلے کا طوق بنا دی جائے گی، دوسرا صفحہ الٹا تو دنیا کے امیر ترین فرد کے انٹرویو کا خلاصہ تھا اور اس میں تحسین کے ڈونگرے ۔
مذہبیوں نے کہا دین چاہیے تو دنیا چھوڑنی پڑے گی، دنیا والوں نے کہا کہ دنیا چاہیے تو دین چھوڑنا پڑے گا ۔ ہم کبھی اس کشتی میں تو کبھی اس کشتی میں ۔
ہمیں ڈرامے دکھائے گئے کہ برے کا انجام برا ہوتا ہے اور اصل زندگی میں ہم نے بروں کو اچھے حالوں میں دیکھا اور اچھوں کو بے حال۔
مکافاتِ عمل کی کہانی آج کا پہلا سب سے بڑا جھوٹ ہے، اور برے لوگ سبق سیکھ کر پچھتاتے ہیں، معافی مانگ لیتے ہیں دوسرا ۔
یہاں اچھوں کو درد جھیلتے دیکھا ہے یا وقت سے پہلے مرتے اور بروں کو عیش و آرام سے رہتے اور دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے۔
کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے آخرت میں کہیں جنت بھی انھی لوگوں کو نہ مل جائے اور وہاں بھی اچھے لوگ کسی چھوٹی سی غلطی پر پکڑ میں آکر جہنم میں جل رہے ہوں۔
تبصرہ لکھیے