تھیلیسیمیا ایک موروثی خون کی بیماری ہے جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہزاروں بچوں کی زندگیوں کو نگل رہی ہے۔ یہ مرض ہیموگلوبن کی پیداوار میں خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کے سرخ خلیے معمول کے مطابق کام نہیں کر پاتے۔ ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً پانچ سے چھ ہزار بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جو اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جس مرض کو احتیاطی تدابیر اختیار کر کے روکا جا سکتا ہے، وہ ہمارے ہاں وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تھیلیسیمیا بنیادی طور پر دو اقسام پر مشتمل ہے۔ پہلی قسم تھیلیسیمیا مائنر ہے جس میں مریض کو معمولی خون کی کمی ہوتی ہے اور زیادہ تر لوگ عام زندگی گزارتے ہیں۔ تاہم، اس کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر دو تھیلیسیمیا مائنر کے حامل افراد کی شادی ہو جائے، تو ان کے بچوں میں تھیلیسیمیا میجر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دوسری قسم تھیلیسیمیا میجر ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اس میں مریض کو باقاعدہ خون کے انتقال کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ وہ شدید انیمیا کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ بچے پیدائش کے بعد ہی کمزوری، پیلی رنگت اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی نشوونما بھی عام بچوں کے مقابلے میں سست ہوتی ہے اور اگر مناسب علاج نہ ملے تو یہ بچے جوانی تک پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں تھیلیسیمیا کے پھیلاؤ کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ قریبی رشتوں میں شادیاں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کزن میرجز یا خاندان میں شادیاں ایک عام روایت ہے جس کی وجہ سے تھیلیسیمیا جیسی موروثی بیماریاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ نہ کروانا ہے۔ اگر لڑکا اور لڑکی شادی سے پہلے ایک سادہ سا خون کا ٹیسٹ کروا لیں تو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آیا وہ تھیلیسیمیا مائنر کے حامل ہیں یا نہیں۔ تیسری بڑی وجہ غربت اور علاج تک محدود رسائی ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو زندگی بھر باقاعدہ بلڈ ٹرانسفیوژن اور مہنگی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے جو غریب خاندانوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ نتیجتاً بہت سے بچے علاج نہ ملنے کی وجہ سے وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تھیلیسیمیا کی علامات میں سب سے نمایاں تھکاوٹ اور کمزوری کا ہونا ہے۔ مریض کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، اور بچوں کی نشوونما عام بچوں کے مقابلے میں سست ہوتی ہے۔ جگر اور تلی کا بڑھ جانا بھی اس بیماری کی ایک اہم علامت ہے۔ اگر کسی بچے میں یہ علامات نظر آئیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور مکمل خون کے ٹیسٹ کروانے چاہئیں۔ ابتدائی تشخیص سے بیماری کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اس بیماری سے بچاؤ کے لیے چند بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ سب سے پہلے تو شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ لازمی کروانے چاہئیں۔ اگر لڑکا اور لڑکی دونوں تھیلیسیمیا مائنر کے حامل ہوں تو انہیں بچوں کی پیدائش سے پہلے جینیٹک کونسلنگ ضرور لینی چاہیے۔ دوسری اہم بات یہ کہ قریبی رشتوں میں شادیوں سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ تھیلیسیمیا کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ تیسری اہم بات عوامی آگاہی ہے۔ حکومت اور این جی اوز کو چاہیے کہ وہ تھیلیسیمیا کے خطرات کے بارے میں عوام میں شعور بڑھائیں۔ اسکولوں، کالجوں اور مقامی کمیونٹیز میں آگاہی مہم چلائی جانی چاہئیں۔ چوتھی اہم بات خون عطیہ کرنے کی عادت کو فروغ دینا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو زندہ رکھنے کے لیے باقاعدہ خون کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے معاشرے میں رضاکارانہ طور پر خون دینے کی روایت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
تھیلیسیمیا کے علاج کے حوالے سے چند اہم باتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو مریضوں کو باقاعدہ بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر ہر دو سے چار ہفتے بعد خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسری اہم بات آئرن چیلیشن تھراپی ہے۔ بار بار خون چڑھانے سے جسم میں آئرن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو دل، جگر اور دیگر اعضاء کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے زائد آئرن کو خارج کرنے کے لیے مخصوص ادویات دی جاتی ہیں۔ تیسرا اور سب سے مؤثر علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے جو ایک مہنگا طریقہ علاج ہے لیکن اگر کامیاب ہو جائے تو مریض مکمل صحت یاب ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ علاج پاکستان میں بہت کم دستیاب ہے اور اس کی لاگت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔
حکومت اور سماجی اداروں کو تھیلیسیمیا کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو سرکاری ہسپتالوں میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے مفت یا سبسڈی پر علاج کی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ دوسرا اہم کام اسکولوں اور کالجوں میں آگاہی پروگرامز چلانا ہے تاکہ نوجوان نسل اس بیماری کے بارے میں سیکھ سکیں۔ تیسرا اہم کام بلڈ بینک قائم کرنا اور خون عطیہ کرنے کی مہم چلانا ہے۔ چوتھا اہم کام شادی سے پہلے لازمی طبی معائنے کا قانون بنانا ہے جس سے تھیلیسیمیا جیسی موروثی بیماریوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
تھیلیسیمیا ایک ایسی بیماری ہے جسے احتیاط اور آگاہی سے روکا جا سکتا ہے۔ اگر ہم شادی سے پہلے ٹیسٹ کروائیں، قریبی رشتوں میں شادیوں سے گریز کریں، اور خون عطیہ کرنے کی عادت اپنائیں تو ہم اس خاموش قاتل کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک چھوٹی سی احتیاط کسی کی زندگی بچا سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں صحت کے مسائل پر بات کرنے کا رجحان کم ہے لیکن تھیلیسیمیا جیسے سنگین مسئلے پر خاموشی اختیار کرنا ہزاروں معصوم بچوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اس بیماری کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے اردگرد لوگوں میں اس کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔ یاد رکھیں، ایک باشعور معاشرہ ہی ایک صحت مند معاشرہ ہو سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے