ہوم << انڈین اقدامات اور پاکستان کا جواب - نواز کمال

انڈین اقدامات اور پاکستان کا جواب - نواز کمال

پاکستان نے انڈین اقدامات کے جواب میں اچھے فیصلے کیے ہیں. کچھ فیصلے تو انڈین فیصلوں جیسے ہی ہیں. مثلاً فضائیہ، نیوی اور آرمی کے اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیات کو قرار دے کر ملک چھوڑنے کا کہہ دیا گیا ہے. تجارت معطل کر دی گئی ہے. بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کو 30 تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

پاکستان نے اس کے علاوہ بھی کچھ چالیں عمدگی سے چلی ہیں. ایک کام تو یہ کیا ہے کہ بھارتیوں کے ویزے منسوخ کیے ، مگر اس سے سکھ یاتریوں کو مستثنیٰ رکھا ہے. یہ درحقیقت سکھوں اور ان کی ریاست کے درمیان اعتماد کی اس لکیر کو چھیڑنے کی کوشش ہے، جسے پاکستان کبھی سکھ یاتریوں کو خصوصی پروٹوکول دے کر اور کبھی کرتارپور بارڈر کھول کر چھیڑتا رہتا ہے. انڈیا پاکستان پہ خالصتان تحریک کی مدد کا الزام بھی عائد کرتا چلا آیا ہے.

پاکستان نے دوسرا اہم اقدام انڈین ایئر لائن کمپنیوں کے لئے اپنی فضائی حدود بند کر کے اٹھایا ہے. اگر پاکستان اور بھارت کا اس زوایے سے موازنہ کیا جائے کہ ان میں سے کس ملک کو اپنے حریف کی فضائی حدود استعمال کرنے کی نسبتاً زیادہ ضرورت ہے تو جواب " انڈیا " آئے گا. پاکستان کو انڈیا کی فضائی حدود کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ انڈیا کو پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کی ضرورت ہے.

پاکستانی طیارے تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور آسٹریلیا جانے کے لیے انڈین فضاؤں کا استعمال کرتے ہیں، جوکہ نسبتاً محدود استعمال کے زمرے میں آتا ہے. جبکہ انڈین طیاروں کے لئے پاکستانی فضائی حدود کی ضرورت بہت زیادہ ہے. انہیں مشرقِ وسطیٰ جانا ہو، وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی پانی ہو ، یورپ کا سفر درپیش ہو یا امریکا کے لیے اڑان بھرنی ہو ، ان تمام صورتوں میں پاکستانی فضائی حدود کا استعمال ناگزیر ہے. پاکستان کی پابندی کے بعد اب انڈین جہازوں کو بحیرہ عرب سے ہو کر گزرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے سفری دورانیے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کرایوں میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہوگا، جس سے انڈیا کی معیشت کو اچھا خاصا جھٹکا لگے گا.

پاکستان نے انڈیا کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں شملہ معاہدے کی منسوخی کی دھمکی دی ہے. اگر انڈیا اپنی ضد پہ اڑا رہتا ہے اور نتیجے میں پاکستان شملہ معاہدے کو ختم کرتا ہے تو یہ برابر کا تھپڑ ہوگا. پاکستان نے شملہ معاہدے کا پتہ بڑی سمجھداری سے کھیلا ہے. کیوں کہ اس معاہدے کی اصل جان خطہء کشمیر سے متعلق نکات ہیں. 1972 میں ہونے والے اس معاہدے میں کشمیر میں جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دے کر اس کے احترام پہ اتفاق کیا گیا تھا . یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ فریقین میں سے کوئی بھی اس سرحدی خط کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا. 2019 میں انڈیا کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان میں یہ آوازیں بھی اٹھی تھیں کہ چونکہ انڈیا نے اس اقدام کے ذریعے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، اس لئے وطنِ عزیز بھی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دے. بالآخر پاکستان نے شملہ معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے ہی دی ہے، جو اس بات کا اعلان ہے کہ معاہدے کے خاتمے کے بعد لائن آف کنٹرول کی موجودہ حیثیت باقی نہیں رہے گی اور پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرنے کا اخلاقی جواز حاصل ہو جائے گا. اب یہ مداخلت براہ راست بھی ہوسکتی ہے، پاکستانی نجی تنظیموں کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے اور کشمیری تنظیموں کو متحرک کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے.

پاکستان جو کارگل جنگ کے بعد نسبتاً دفاعی پوزیشن پہ کھڑا نظر آتا رہا ہے ( جس کی اہم ترین وجہ افغان جنگ تھی) اور بسااوقات کچھ کڑوے گھونٹ بھی پیتا رہا ہے ( جیسا کہ دو ہزار انیس میں انڈین اقدامات کے جواب میں پانچ منٹ کی خاموشی جیسا مضحکہ خیز ردعمل ) ، مگر اس بار تگڑا اور ترکی بہ ترکی جواب دیا جارہا ہے.

انڈیا اور اسرائیل دونوں ممالک آپس میں گہرے دوست ہیں اور دونوں کی یہ خصلت رہی ہے کہ تگڑا جواب ملے تو فوراً پسپا ہو جاتے ہیں. اسرائیل کے ماضی میں اردن اور مصر سے کیے گئے کچھ معاہدے اس کے گواہ ہیں ،جبکہ انڈیا پینسٹھ کی جنگ ہو یا 2020 میں چینی افواج سے ہونے والی دو بدو جھڑپ، ہر ایسے موقع پر شریف و سمجھدار پڑوسی کا روپ دھارتا نظر آیا ہے.

بہرکیف انڈیا اور پاکستان پہلی بار نہایت منظم انداز میں سیاسی اور سفارتی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ ماضی میں کیے گئے اہم ترین معاہدوں کے توڑنے جیسے داؤ پیچ استعمال کر رہے ہیں. پاکستان کی جانب سے اس مرحلے پر جارحانہ اقدامات ضروری ہیں، تاکہ بات باقاعدہ جنگ کی جانب نہ بڑھے.