ہوم << ہمارا بچپن اور 14 اگست - محمد فیصل شہزاد

ہمارا بچپن اور 14 اگست - محمد فیصل شہزاد

ہمارے بچپن میں 14 اگست کا دن ہزاروں خوشیاں لے کر آتا تھا. مجھے یاد ہے ہم سب بہن بھائی ایک دن پہلے ہی امی جان کے بکسے سے گھر کا سلا ہوا وہ پرچم نکالتے جس کے کنارے پر سنہری گوٹا جھلملاتا تھا. برسوں سے وہ ہر 14 اگست کو ہمارے محب وطن ہونے کا ثبوت بن کر، ہمارے گھر کی چھت پر لہراتا. اور پھر 15 اگست کو ہم اسے پیٹی میں تہہ کر کے ایک سال کے لیے سلا دیتے. بڑے بھائی خرم شہزاد 13 اگست کو ہی بانس پر پرچم لگا دیتے. پرچم کے اوپر ایک 100 پاور کا بلب بھی لگایا جاتا، جو روشن ہوتا تو اس کی روشنی میں پرچم لہراتا بہت ہی خوبصورت لگتا. ادھر ہم چھوٹے بہن بھائی امی سے گیلا آٹا لے کر کاغذ کی جھنڈیوں کو ایک دھاگے پر چپکاتے، جنہیں جھنڈے کے بانس کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے تک ایک اہرام کی طرح فرش سے منسلک کر دیا جاتا. یہ کاغذ کی جھنڈیاں، جب ہوا چلتی تو چھرر شرر بڑی خوبصورت آوازیں پیدا کرتیں. سن کر یوں لگتا جیسے ان سے بھی ملی نغمے پھوٹ رہے ہوں!
اس رات مارے جوش کے ہم سب ہی بمشکل سوتے، سب بچوں کے چہروں پر اک دبا دبا سا جوش جھلکتا، ہم بار بار بہانے سے صحن میں جا کر اپنا عَلم دیکھتے اور خوش ہوت، گھر گھر ہی نہیں، پوری گلی کو سارے محلے والے پیسے ملا کررنگ برنگی کاغذی جھنڈیوں سے بھر دیتے تھے، واہ کیا حسین سماں ہوتا تھا۔ صبح صبح ناشتہ بعد میں کیا جاتا، سب سے پہلے پرانا ٹیپ ریکارڈر عین جھنڈے کے سائے تلے رکھ کر اس میں ملی نغموں والی کیسٹ بجائی جاتی، کیا سحر انگیز ملی نغمے ہیں ہمارے یار!، ایک سے بڑھ کر ایک، میرے خیال میں پاکستان کے ملی نغمے شاید جذبات انگیزی میں، دنیا کے کسی بھی ملک کے ملی نغموں سے بہت آگے ہیں، یہی دیکھ لیں کہ ان نغموں کے بہت سارے الفاظ کی معنویت شاید ہم بچوں کو سمجھ میں نہ آتی تھی مگر سن کر نجانے کیوں ہم بچوں کی بھی آنکھیں بھیگنے لگتیں. اسی وقت سارے بچے ایک دوسرے کے گھر جا کر تیاریاں بھی دیکھ آتے. دیکھتے کیا تاڑتے! دزدیدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کی سجاوٹ دیکھتے کہ کس نے کیسا گھر سجایا ہے؟
پھرجناب! اپنا آپ سجانے کی باری آتی، سبز ہلالی کیپ اور پرچم والا بیج تو خیر ضروری تھا ہی، اماں ابا پر اگر زور چل جاتا تو ہرے سفید رنگوں سے مزین پلاسٹک کی گھڑیاں بھی مل جاتیں، خیر صاف ستھرے کپڑے پہنے ہم پھر اپنے اپنے اسکول روانہ ہو جاتے!
14 اگست کو اسکول کے مزے ہی الگ ہوتے تھے، ہم عموماً ملی نغموں میں حصہ لیتے تھے جس کی بھرپور تیاری ہماری مسز (مس کی جمع) ہفتہ عشرہ پہلے سے ہی کروانا شروع کردیتی تھیں، اس دن وہ بھی معمول کے یونیفارم سے ہٹ کر گھر کے لباس میں آتیں، قصہ مختصر ہمارے بچپن کے مذہبی اور ملی تہوار کے مزے ہی کچھ اور ہوتے تھے، مگر اب!
اب تو لگتا ہے کہ 14 اگست کی وہ رومانویت ختم ہو کر رہ گئی ہے، گو اب بھی قوم جشن آزادی مناتی ہے مگر مغربی انداز غالب آ گیا ہے، فائرنگ، آتش بازی، ناچ، گانا، سڑک بلاک، ہاؤ ہو، چیخنا چلانا.
جب کہ ہماری مشرقی ثقافت میں اک مدھر سا دھیما پن تھا، جذبات تھے مگر دھیمی آنچ کی طرح اندر ہی اندر وطن کے لیے سب کچھ لٹا دینے پر آمادہ کرنے والے، نہ کہ آج کی طرح طوفان بن کر اپنے ہی ہم وطنوں کو تکلیف پر ابھارنے والے…جس کی ایک جھلک ہم نے کل رات بارہ بجے کراچی میں دیکھی، اور تو اورہمارے بچے بھی اب گھر نہیں سجاتے بلکہ فیس بک پراپنی آئی ڈی کو سجاتے ہیں!

Comments

Click here to post a comment