کچھ دن قبل چند حلقوں میں بحث چھڑی۔ احباب کا شکوہ تھا کہ میرا لہجہ تلخ ہے۔ ان کی بات سن کر دل میں ایک اضطراب سا جاگا اور ایک گہری اداسی نے آن گھیرا۔ عرض یہی کی کہ عمومی گفتگو میں تلخی ہمارا مزاج نہیں، مگر غزہ جیسے مقدس اور انسانیت سوز سانحے پر اگر کوئی مسلمان اب بھی “نرمیِ لہجہ” کی توقع رکھتا ہے، تو وہ شاید اپنی روح کے آئینہ خانہ پر گرد جمنے دے چکا ہے۔
یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں۔ یہ ایمان کا سوال ہے۔ بیت المقدس اور اہلِ غزہ سے رشتہ ہمارے عقیدے سے بندھا ہے۔ یہ صرف انسانی ہمدردی کا تقاضا نہیں، یہ ایمانی وفاداری کا امتحان ہے۔ اور اس وقت، جب غزہ میں قیامتِ صغریٰ کا منظر ہے، معصوم بچوں کی لاشیں ملبے تلے سے نکالی جا رہی ہیں، مائیں بچوں کی میتوں سے لپٹی سسک رہی ہیں، مساجد، اسکول، اسپتال سب ملبہ بنا دیے گئے ہیں ایسے میں اگر ہم بھی “مہذب گفتگو” کی بُلبل چہچہاتی فضا کے اسیر ہو جائیں، تو پھر ہمارے ضمیر کے جنازے میں بھی ہم خود شامل ہوں گے۔
المیہ صرف یہ نہیں کہ اسرائیل بربریت پر آمادہ ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر صدمہ یہ ہے کہ ہمارے اردگرد کے “نام کے مسلمان” اس قتلِ عام کا مذاق بنا رہے ہیں۔ جو مظلوموں کے لیے آواز بلند کرے، اسے طعنہ زن کیا جاتا ہے۔ جو فلسطینیوں کے لیے فنڈنگ کرے، اس پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ جو غزہ کے شہداء کے لیے دعا کرے، اسے “انتہا پسند” قرار دیا جاتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔ دلیل سے نفرت، مشاہدے سے انکار، اور حقیقت سے بغاوت ان کا شیوہ ہے۔ یہ نہ صرف اندھے ہیں، بہرے اور گونگے ہیں — بلکہ ان کی روح پر طاغوت نے قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ جہاد کے ذکر سے بدکتے ہیں، مزاحمت کے تذکرے پر بلبلا اٹھتے ہیں، اور امت کی وحدت کا نام سن کر بھاگ نکلتے ہیں۔
ایسے میں اگر کسی کو روبل کا غلام، روسی ایجنٹ یا کمیونسٹ کہا جائے، یا ڈالر کا پجاری، امریکی غلام اور “لبرل انتہا پسند” پکارا جائے، تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اور اگر کوئی اسلام، جہاد اور مظلوموں کا دشمن ہو، تو اسے ایسا کہنا گناہ نہیں بلکہ ایک فکری اور اخلاقی وضاحت ہے۔
یہ وہ “دانشور” ہیں جن کی ڈکشنری میں شرم، غیرت، جرات، اور وفاداری جیسے الفاظ معدوم ہو چکے ہیں۔ مگر جب ان کی بے حیائی اور منافقت پر آئینہ دکھایا جائے تو فوراً سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ ان کی برداشت صرف تب تک ہے جب تک کوئی ان کی خرافات پر خاموش رہے۔
محترم!
فلسطین کا مقدمہ ایمان کا مقدمہ ہے۔ یہ محض سیاسی یا سماجی ایشو نہیں، یہ ہمارے عقیدے کی اساس ہے۔ اس پر بکواسات سننے اور الزامات سہنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی روح کو مسخ ہونے دے رہے ہیں۔ اور یقین کیجیے، ایسا نہیں ہو سکتا۔
ہم نہ “گاندھی کے مقلد ہیں کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا پیش کر دیں،” اور نہ کسی شخصیت پرستی کے بت کے پجاری ہیں۔ نہ ہم اُن “ماڈرن” مفسرین کے پیروکار ہیں جو دین میں اپنی پسند کی ترامیم چاہتے ہیں، اور نہ اُن منافقوں میں سے ہیں جو کیمونزم سے براءت کا اعلان کیے بغیر کیپٹل ازم کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں ان تمام دوغلے کرداروں سے بالکل باغی سمجھا جائے جو ” چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“کے مصداق ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگنے کو ایمان کا تقاضا سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارا ضمیر زندہ ہے، ہم اچھے اور برے کی تمیز رکھتے ہیں، اور مومنانہ بصیرت کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتے ہیں۔
ہم نے افغان جہاد کی بھی حمایت کی، ہم نے امریکی سامراج کے خلاف آواز بھی بلند کی، اور آج ہم حماس کی مزاحمت کو بھی بغیر کسی معذرت کے حق سمجھتے ہیں عین ایمان کا تقاضا۔ ہم غزہ کے لیے ہونے والے مظاہروں، بائیکاٹ، امدادی فنڈنگ، اور ان کے مخالفین کو دو ٹوک جواب دینے کو جہاد کا حصہ مانتے ہیں۔ اور اگر اس سے کسی کا سکون، نیند یا ضمیر متاثر ہوتا ہے، تو ہم اس پر معذرت خواہ نہیں بلکہ خوش ہیں۔
اب کوئی تڑپے، کوئی چیخے، کوئی بلبلائے، یا کوئی مر جائے ہمیں اس سے غرض نہیں۔ جہاں تک ممکن ہوا، ہم سویت یونین کی شکست، امریکہ کی ذلت، اور اسرائیل کی تباہی کا تذکرہ کریں گے، تاکہ ان بزدلوں کے زخموں پر نمک چھڑک سکیں۔ اور یہی ہمارا جواب ہوگا ہر اس زبان کو جو مظلوموں کے بجائے ظالموں کی بولی بولتی ہے۔
تبصرہ لکھیے