ہوم << رد الحاد اور پی ایچ ڈی سطح کے محققین کا المیہ - ڈاکٹر حسیب احمد خان

رد الحاد اور پی ایچ ڈی سطح کے محققین کا المیہ - ڈاکٹر حسیب احمد خان

رد الحاد یا مغربی افکار و نظریات کا رد آجکل ایک معروف عنوان بنا ہوا ہے اور ہمارے یہاں اس کی ایک ہوا چلی ہوئی ہے کسی سیزنل بخار کی طرح ہر دوسرا محقق اس موضوع پر طبع آزمائی فرما رہا ہے ایک طرف تو بیسیوں ایم فل/پی ایچ ڈی سطح کے مقالے زیر تعمیر ہیں تو دوسری جانب تعمیر شدہ مقالوں کے کھنڈرات بھی عجب مقام عبرت کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔

رد الحاد کا شور سوشل میڈیا کے ابتدائی دور سے ہی اٹھا کہ جب رفیع رضا اور اس کے گماشتوں نے ادب کی آڑ میں ارتقاء فہم و دانش جیسے فورمز شروع کیے جہاں پر نوجوانوں کو فلسفے و ادب کی آڑ میں ملحد بنانے کی فیکٹری لگائی گئی اسی دور میں مختلف شعبوں سے منسلک اہل علم آگے بڑھے اور اس شعبے کو سنبھالا خادم بھی ایک عالم دین کے فرمانے پر اس طرف آیا چونکہ تھوڑا بہت تعلق ادبی حلقوں سے رہا اسلیے ابتدائی درجے میں ادب کے دائرے میں اور بعد ازاں مکالمے و مباحثے کے میدان میں اس شعبے پر کام کیا اور پچھلے کئی سال سے علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اس عنوان پر تربیتی حلقے کروانے کی ترتیب بھی رہی ہے۔

ہمارے محققین کی نگاہ میں یہ شعبہ خاص کر اکادمیا سے منسلک محققین کی نگاہ میں یہ شعبہ بڑی دیر سے آیا اور پھر ایک بھیڑ چال شروع ہوگئی۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے پی ایچ ڈی سطح کے محققین جو اس شعبے میں ڈگری حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں یا پھر کر چکے ہیں ان میں سے اکثر اس حوالے سے یکسر نا اہل ہیں۔ جی ہاں یہ ایک تلخ مگر حقیقت ہے۔ آپ کسی بھی ایسے پی ایچ ڈی اسکالر کو کسی علمی حلقے میں محاضرے کیلیے مدعو کیجیے اور سوال جواب کا اوپن سیشن رکھیے یا پھر ان کا کسی ملحد سے مکالمہ کروادیجیے تو انتہائی قابل افسوس اور مایوس کن صورت سامنے آئے گی۔

حوالہ جات کے طومار سے بوجھل مقالہ جات لکھنے والے اسلامی علم الکلام ، تہذیب مغرب ، فلسفہ اور منطق کی الف ب سے بھی واقف نہ ہوں گے کجا کہ جدید مغربی افکار و نظریات اور مکالمہ کرنا تو ایں خیال است و محال است و جنوں کی مصداق ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے احباب ان سوالات کے حوالے سے خود تشکیک کا شکار ہو جاتے ہیں یعنی۔
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب​
اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں​

ایسا نہیں کہ پی ایچ ڈی سطح کے محققین میں اس معیار کے لوگ نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا شعبہ تحقیق فرق ہے کسی نے معاشیات کسی نے فلسفے کسی نے سیاسیات کسی نے تقابل ادیان کسی نے عمرانیات تو کسی نے ایسٹرو فزکس جیسے عنوانات میں تخصص کر رکھا ہے۔ خاص الحاد و دہریت جیسے عنوانات پر مقالہ جات لکھنے والے اس فن اور اس کی مبادیات سے فارغ دکھائی دیتے ہیں۔

کوئی دن نہیں گزرتا کہ کوئی موصوف اس عنوان پر مقالہ لکھنے کی خواہش لیے چلے آتے ہیں اکثر کے سپر وائزر خود بھی اس عنوان سے کورے ہوتے ہیں تو بہت سوں کو مجھ جیسے لوگوں کی جانب ریفر کردیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی قسمت نو آموز مصنفین کا مطالبہ ہوتا ہے کہ انہیں کتب کے نام بلکہ ان کی پی ڈی ایف فائلز ، عنوانات و ابواب اور تمام تر تفصیلات بھی فراہم کی جائیں جب ان سے کچھ بنیادی سوالات پوچھے جائیں تو ہاتھ صرف یاسیت ہی آتی ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اتنے حساس موضوع پر کوئی مقالہ سپر وائز کیسے کرلیتا ہے ، مقالہ جات لکھنے کی اجازت کیسے مل جاتی ہے ، اور پھر پھر وہ وائیوا سے کس طرح گزر جاتے ہیں واللہ اعلم۔ گزارش یہ ہے کہ اس حوالے سے فکر مندی کا مظاہرہ کیا جائے اور اس عنوان کی حساسیت کو سمجھا جائے وگرنہ کل کو یہ بھانت بھانت کے محققین اس امت کے گلے پڑ جائیں گے اور خود بھی فتنے میں مبتلا ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے اور اس کے ذمہ دار وہ تمام افراد اور یہ تعلیمی نظام ہوگا کہ جس سے ہم منسلک ہیں۔
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment