میں سقراط، ایتھنز کا وہ باشندہ جس نے سچ کی خاطر زہر کا پیالہ پیا، آج بھی زندہ ہوں۔ میرے الفاظ، میرے خیالات اور میرے شاگرد میرے وجود کا تسلسل ہیں۔ میری زندگی کا ہر لمحہ سچائی کی جستجو میں گزرا، اور میری موت بھی اسی راہ میں آئی۔ مگر کیا واقعی میں مرا ہوں؟
نہیں! میں تو وہ بیج ہوں جو زمین میں دفن ہو کر اک نئی فصل کی بنیاد رکھتا ہے۔ جیل کی کوٹھری میں، جب مجھے زہر کا پیالہ تھمایا گیا، تو میرے شاگرد، خاص طور پر پلیٹو، غمگین تھے۔ میں نے مسکرا کر انھیں تسلی دی:
"کیا تمھیں لگتا ہے کہ جسم کی موت، روح کی موت بھی ہے؟ کیا یہ انصاف ہوگا کہ حق کی راہ پر چلنے والا فنا ہو جائے، اور باطل باقی رہے؟ نہیں، میں نہیں مروں گا!"
میں نے پیالہ لبوں سے لگایا، اور ایک گھونٹ پیا۔ میرے بدن میں سنسناہٹ پھیلنے لگی، مگر میرا ذہن اب بھی روشن تھا۔ میں نے کہا:
"موت ایک دروازہ ہے، جہاں سے گزر کر ہم ایک اور حقیقت میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر وہاں بھی عقل و منطق کی قدر ہوگی، تو میں وہیں بھی سوالات اٹھاؤں گا۔ اگر کچھ نہ ہوا، تو کم از کم میں ایک طویل نیند سو جاؤں گا۔"
میری آخری نصیحت یہ تھی:
"اپنے دل کی آواز سنو، خود کو پہچانو، اور ہمیشہ سچ کے راستے پر چلو، چاہے اس کے بدلے میں دنیا تمھیں زہر ہی کیوں نہ دے!"
جب میری آنکھیں بند ہوئیں، تو مجھے لگا جیسے میں نیند میں جا رہا ہوں۔ مگر یہ نیند عام نہ تھی۔ روشنی کے ایک دریچے سے میں نے اپنے سامنے پرانے دانش وروں کو کھڑا پایا۔ فیثا غورث، ہیرکلیٹس، اور ہومر سب میرا استقبال کر رہے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا:
"تو کیا واقعی موت کے بعد زندگی ہے؟ اگر ہے، تو یہ دنیا بھی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے بہترین جگہ ہوگی!"
یہاں بھی میں سوالات کر رہا ہوں، سچ کی تلاش میں ہوں۔ شاید یہاں کوئی عدالت نہ ہو جو مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے، مگر یہاں بھی عقل و خرد کی بحث جاری ہے۔ میں آج بھی زندہ ہوں، ہر اس شخص میں جو سوچنے کا ہنر رکھتا ہے، جو سوال کرنے کی ہمت رکھتا ہے، جو سچائی کو جھوٹ سے جدا کر سکتا ہے۔ میں سقراط تھا، میں سقراط ہوں، اور جب تک سچائی باقی ہے، میں ہمیشہ سقراط رہوں گا!
سقراط : ایک سوانحی خاکہ
سقراط (Socrates)کی پیدائش469 قبل مسیح، ایتھنز، یونان میں ہوئی۔ جبکہ اس کی موت 399 قبل مسیح، ایتھنز (زہر کا پیالہ پینے کے بعد) ہوئی۔ سقراط نے باضابطہ طور پر کوئی تحریر نہیں چھوڑی، مگر اس کے خیالات کو اس کے شاگردوں، خاص طور پر افلاطون (Plato) نے محفوظ کیا۔ وہ ایک فلسفی تھا جو عقل، منطق اور اخلاقیات پر بحث کرتا تھا۔ سقراط کی نظریات درج ذیل تھے:۔
1. سقراطی مکالمہ (Socratic Method) : سوالات کے ذریعے سچائی کو جانچنے کا طریقہ۔
2. "اپنے آپ کو جانو" : سقراط کا بنیادی نظریہ کہ ہر انسان کو خود کی پہچان ہونی چاہیے۔
3. اخلاقی فلسفہ : اچھائی اور برائی کی بنیاد منطق اور فہم پر ہے، نہ کہ محض روایات پر۔
4. جمہوریت پر تنقید : وہ سمجھتا تھا کہ حکومت اہل اور دانا افراد کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
سقراط سادہ زندگی گزارتا تھا، بازاروں میں گھوم کر لوگوں سے سوال کرتا تھا، اور روایتی خیالات کو چیلنج کرتا تھا۔ اس کی باتیں اکثر ایتھنز کے بااثر افراد کو ناگوار گزرتی تھیں۔
ایتھنز کی عدالت نے سقراط پر درج ذیل الزامات عائد کیے:۔
1. نوجوانوں کو بگاڑنا
2. ریاستی خداؤں کی توہین کرنا
عدالت نے اسے زہر (ہیم لاک) پینے کی سزا دی، جسے اس نے قبول کر لیا۔ سقراط کی موت نے فلسفے کی دنیا میں ایک نئی روح پھونکی۔ اس کے شاگرد افلاطون نے اس کے نظریات کو آگے بڑھایا، اور ارسطو نے مزید فلسفیانہ بنیادیں رکھیں۔ سقراط ایک ایسا فلسفی تھا جو آج بھی "سوالات اٹھانے" کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی زندگی، تعلیمات، اور قربانی نے دنیا کو تنقیدی سوچ کا سبق دیا، اور وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
تبصرہ لکھیے