میں اس وقت گرمیوں کی چھٹیاں منانے کے لیے یورپ کے مختلف ممالک میں سیر و تفریح کر رہا ہوں۔ پڑھائی کے لیے باہر آیا ہوا ہوں تو موقع سے فائدہ اٹھا کر ’’چاچا جی‘‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بچپن کے پہلے پیار ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ میں جہاں جہاں وہ گئے تھے، وہیں وہیں جانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہاں ’’پاسکل‘‘ والی اب ہماری عمر ہے نا حالات۔ بہرحال ہم نے سوچا تھا کہ بیس اگست کو واپسی تک کچھ نہیں لکھنا لیکن چودہ اگست کے لیے کچھ لکھنا ضروری سمجھا۔
میرے بہت سے دوست یہ رائے رکھتے ہیں کہ جمہوریت میں احتساب کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، انتخابات۔ ان کی بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ چاہے دھاندلی سے، زور زبردستی سے ایک بار کوئی الیکشن جیت جائے تو پھر وہ احتساب سے مبرا ہو جاتا ہے۔ اسے پانچ سال کے لیے ’’لائسنس ٹو کل‘‘ مل جاتا ہے۔ وہ جو مرضی کرے، چاہے لوگ قتل کرے، چاہے لوٹ مار کرے، چاہے ملک کو قرضوں میں پھنسا دے اسے کسی کو چھونے یا احتجاج کا بھی حق نہیں ہے۔ جو ان حرکتوں کے خلاف احتجاج کرے وہ ’’جنرل پاشا‘‘ کا ایجنٹ، اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ، لندن پلان اور جمہوریت کے خلاف سازش کر رہا ہوگا۔ جمہوریت بھی ان دوستوں کے نزدیک اشخاص کی حکومت کا نام ہے، جماعت کی نہیں۔ مثلا اگر نواز شریف صاحب حکمران ہیں تو جمہوریت کا مطلب نواز شریف ہی ہے۔ جہاں ان کی شخصیت کو خطرہ لاحق ہوا، جمہوریت خطرے میں۔ اسی طرح جہاں زرداری صاحب کی شخصیت کو خطرہ ہو، جہوریت کے خلاف سازش ہو جائے گی۔ ان محترم دوستوں کے نزدیک انتخابات ہوتے رہیں تو کسی ’’ارتقاء‘‘ یا ’’تدریج‘‘ کے تحت خود بخود اچھے لوگ آتے جائیں گے اور برے لوگ جاتے جائیں گے۔ اسی طرح جب تک عدالت سے کچھ ثابت نہیں ہو جاتا، کسی شخص کو یا جماعت کو احتجاج کا حق حاصل نہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے محض پارلیمنٹ میں کیا جائے۔ یہاں تک میں نے پوری ایمانداری سے ان دوستوں کا نکتہ نظر سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اب نکتہ وار جواب عرض کریں گے۔ ارتقاء کا عمل ’’کنٹرولڈ‘‘ ہونا چاہیے ورنہ ’’خود بخود‘‘ مثبت ارتقاء میں ہزاروں لاکھوں سال لگ سکتے ہیں۔ جن ممالک میں بھی اس کو کنٹرول کیا گیا، گائیڈ کیا گیا وہ پاکستان سے کم عمر یا تقریبا ہم عمر ہونے کے باوجود ترقی کر گئے۔ ترکی، جرمنی، ملائشیا، انڈونیشیا، چین، جاپان، سنگا پور چند مثالیں ہیں۔
ان مثالوں پر دوستوں کا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ ممالک تو ہزاروں سال کی تاریخ رکھتے ہیں جبکہ پاکستان بنے تو محض ستر سال ہوئے ہیں۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے لوگ یا پاکستان نام کا زمین کا ٹکڑا چودہ اگست انیس سو سنتالیس کی رات کو سیدھا آسمان سے زمین پر نازل نہیں ہوا تھا بلکہ یہ اس سے پہلے بھی وجود رکھتے تھے، ایک تاریخ رکھتے تھے۔ اگر آپ کے اعتراض کو درست تسلیم کر لیا جائے اور محض جغرافیہ کی تبدیلی کی وجہ سے کسی قوم کو اس کی پوری تاریخ اور پس منظر سے محروم کر کے اسے ایک "نئی قوم" ڈکلیئر کر دیا جائے پھر تو بھارت بھی ایک نئی قوم ہوا، ترکی بھی، جرمنی بھی، جاپان بھی۔ پاکستان کے سلسلے میں واحد نئی چیز اس کا نام تھا اور کچھ نہیں۔ اور محض نیا نام رکھنے کی وجہ سے آپ اپنے تاریخی اور تہذیبی ورثے سے محروم نہیں ہو جاتے۔
اگلا اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں صدیوں سے جہوریت ہے، جمہوریت پنپنے اور جڑیں پکڑنے میں وقت لیتی ہے وغیرہ، پاکستان میں بھی وقت لے تو ہمیں معترض نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی بات کا مطلب، جنوبی کوریا کا ’’پنج سالہ‘‘ منصوبہ نہیں بلکہ کوئی ’’پنج سو سالہ‘‘ منصوبہ چاہیے ہے پاکستان کی ترقی کے لیے۔ اب اس بات کا سادہ سا جواب بھی پیش ہے۔ فرض کریں، آپ نے کسی کو اپنی منزل کی طرف جاتے ہوئے دیکھا اور اس دوران وہ کہیں سے ٹھوکر کھا کے گرا، تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہم پر بھی وہیں ٹھوکر کھا کے گرنا فرض ہے؟ ہم اس سے سبق کیوں نہیں سیکھ سکتے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ عقل مند دوسروں کے تجربے سے سیکھتا ہے جب کہ بیوقوف خود تجربے کرنے میں وقت ضائع کر کے سیکھتا ہے؟ اسی بات کا ایک اور جواب۔ آج کوئی آپ سے کہے کہ پاکستان میں جدید ترین یونیورسٹیوں کی شدید ضرورت ہے اور آپ جواب دیں کہ نہیں یورپ کو وہاں تک پہنچنے میں صدیوں کا وقت لگا تھا، ہمیں بھی پہیہ ایجاد کرنے سے شروع کرنا چاہیے اور رفتہ رفتہ ’’ارتقاء‘‘ کے تحت ترقی کی منازل طے کرنی چاہییں۔ آپ خود بتائیں، اس منطق پر تالیاں آپ کے لیے بجیں گی، یا آپ کے سر پر؟
اگلا نکتہ، پارلیمنٹ میں احتجاج کے بارے میں۔ دیکھیں احتجاج ایک آئینی اور جمہوری حق ہے۔ جمہوری نظام کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ جہاں کہیں آپ کو لگے کوئی حکمران جماعت پارلیمنٹ میں اپنی عددی برتری کی بنا پر ملک و قوم کے لیے نقصان دہ پالیسیاں بنا رہی ہے تو آپ پرامن احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اس وقت پہلے ہی پاکستان کا آئین اور قوانین مثالی ہیں۔ ان میں کسی ترمیم یا بڑے ریفارمز کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے بڑی ریفارمز یہ ہوں گی کہ پہلے سے موجود قوانین پر عمل کیا جائے۔ چاہے وزیراعظم کی کرپشن سامنے آئے، اسے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ویسے بھی یہ پارلیمانی نظام ہے، صدارتی نہیں کہ ایک شخص کے جانے سے ’’جمہوریت‘‘ کو خطرہ پڑ جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن ممالک میں صدارتی نظام نافذ ہے وہاں بھی یہ منطق پیش نہیں کی جاتی بلکہ حاکم کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔
اگر پارلیمنٹ میں اصلاح احوال کی کوئی صورت موجود ہو تو ضرور پارلیمنٹ میں ہی مسائل حل کریں مگر اتمام حجت کے بعد سڑکوں پر نکل آنے سے جمہوریت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ ڈکٹیٹرز کو پیغام جاتا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے سلسلے میں متحد ہیں اور جاگ رہے ہیں، آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور ہم ان مسائل کو حل کر لیں گے۔ اگر اس دوران حکومت اپنی اوقات سے باہر جائے اور سڑکوں پر موجود عوام کے مطالبے سننے سے انکار کر دے یا طاقت کے استعمال کی کوشش کرے تو پھر جمہوریت کو "خطرے" میں ڈالنے کی ذمہ دار حکومت ہو گی، احتجاج کرنے والے نہیں۔
تبصرہ لکھیے