ڈمپر، ٹینکرز اور ٹرالرز کی وجہ سے درجنوں ہلاکتوں پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت کی طرف سے باربرداری کے ان ذرائع کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے کی دوسری جانب ڈمپر اور ٹرالرز کے منی پیک ساشے یعنی چھ سیٹر رکشوں کے خلاف بھی انتہائی اقدام کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے ان پر باقاعدہ پابندی عائد کردی گئی ہے جس کا شہری حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ لیکن سندھ یا شہری حکومت نے اس کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نارتھ کراچی کے سیکٹرز 5-اے ون، ٹو، تھری، 5-بی ون، ٹو، تھری، 5-سی ون، ٹو تھری، فور، سیکٹر تھری، پختون آباد، رشید آباد، سیکٹر 7-ڈی ون، ٹو، تھری، سیکٹر 8 کی تقریباً ساڑھے تین لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کے ملازمت پیشہ افراد اپنے جائے روزگار پر پہنچنے کے لئے بڑی بسیں نہ ہونے کی وجہ سے چھ سیٹر رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ تین سال قبل تک زرینہ کالونی سے ٹاور کے لئے 4-جے کی بسیں چلا کرتی تھیں جس کی وجہ سے یہاں کا چوراہا اور ٹرمینس بھی 4-جے اسٹاپ کے نام سے معروف تھا۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ بند کردی گئیں۔ ان بسوں کے علاؤہ یہاں کسی بھی قسم کی پسنجر ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سڑکوں پر گہرے اور عمیق کھڈ ہونے اور ان میں روزانہ نصف درجن گاڑیاں گرنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز اس علاقے میں بسیں، کوچ یا ویگن چلانے کی ہمت نہیں کرپاتے کیوں کہ اس گم گشتہ سڑک پر گاڑیاں چلا کر اپنے ذریعہ روزگار کو تباہی و بربادی سے ہم کنار کرنے اور کثیر مالی نقصان اٹھانے کے مترادف ہے۔ عوام کی پریشانیوں کا فائدہ چنگچی رکشہ اور چھ سیٹر مافیا کو پہنچے گا اور یہ پابندی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے گی۔
چند سال قبل بھی چنگ چی اور چھ سیٹر رکشوں پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن رکشہ اسٹینڈز کے ٹھیکیدار اور بااثر مالکان اپنی فریاد لے کر ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ہیڈ آفس پہنچے اور جماعتی اکابرین سے ملاقات کی جنہوں نے رکشہ مالکان اور ٹھیکیداروں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے حکومتی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے رکشہ ڈرائیورز اور ان کے خاندان کو مظلوم قرار دیا۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی رکشہ مالکان حق میں دیا گیا۔ قوی امکان ہے کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلے کی نقل لے کر دوبارہ مذکورہ سیاسی جماعت کے ہیڈ کوارٹر پہنچیں اور جماعت کے قائدین، حکومتی "جبر و استبداد" کا شکار ان مظلوموں کی فریاد پر لبیک کہتے ہوئے مجاہدانہ انداز میں عدالت عالیہ کا رخ کریں۔
ایک بات ہمارے لئے ناقابل فہم ہے کہ میگا سٹی کراچی کے زیادہ تر ٹاؤنز میں اسی جماعت کے چیئرمین اور ٹاؤن چئیرمینز کی حکمرانی ہے۔ لیکن زیادہ تر علاقوں کی شاہراہیں کھنڈرات کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔ پارکس کچرا گھر اور اسکول گند آب کے تالابوں میں ڈوب گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے توسط سے بارہا ٹاؤن و علاقائی چئیرمینوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ جب چھ سیٹر رکشوں پر پابندی کے حکومتی فیصلے کے بارے میں رائے معلوم کرنے کے لئے ممتاز سماجی رہنما صغیر علی صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے چھ سیٹر رکشوں پر پابندی کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چنگچی اور چھ سیٹر رکشے ڈمپر، ٹرالر اور ٹینکرز سے زیادہ شہریوں کی زندگیوں کے لئے خطرناک اور مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھ سیٹر رکشے تمام ٹریفک قوانین سے بالا تر اور ان کے ڈرائیورز اخلاقی اقدار سے نابلد ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس اہل کار انہیں روکنے، ان کے کاغذات اور کرایہ نامہ دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر رکشے پولیس افسران کے چلتے ہیں۔ کرایہ نامہ مختلف روٹس پر چلنے والے رکشوں کے اڈہ مالکان یا ٹھیکیدار طے کرتے ہیں۔ ٹھیکیدار حضرات انتہائی بارسوخ ہوتے ہیں کیونکہ یہ ہر دو طرفہ ٹرپ پر رکشہ ڈرائیوروں سے ٹوکن کی مد میں خطیر رقم وصول کرتے ہیں جس میں سے مبینہ طور پر ایک بڑا حصہ علاقے کے تھانے اور ٹریفک پولیس کے علاقائی افسران کو بھیجا جاتا ہے تاکہ پولیس اہل کار کسی بھی چھ سیٹر رکشہ ڈرائیور کی لاقانونیت پر اسے روک کر بازپرس نہ کرسکیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ چھ سیٹر رکشے میں ڈرائیور سمیت 9 افراد سوار ہوتے ہیں۔ چھ پسنجر پچھلی نشستوں پر اور دو ڈرائیور کے دائیں بائیں بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاؤہ ڈرائیور حضرات دو تین بسنجرز کو پچھلی سیٹوں کے فٹ بورڈ پر کھڑا کرلیتے ہیں۔ کنجائش سے زیادہ مسافر سوار ہونے کی وجہ سے رکشے توازن بگڑنے کی وجہ سے اکثر الٹ جاتے ہیں مسافر ہلاک و زخمی ہوتے ہیں۔ ان کی وحشیانہ ڈرائیونگ کی وجہ سے پیدل، موٹر سائیکلوں پر سوار کرنے والے حادثات سے دوچار ہوتے ہیں۔ مسافروں سے جب اس بارے میں معلومات کیں تو انہوں نے بتایا کہ چھ سیٹر رکشہ ڈرائیوروں میں سے بیشتر کم عمر ہوتے ہیں۔ ڈرائیوروں کی بڑی تعداد جو غیر مقامی افراد پر مشتمل ہے، زیادہ تر ڈرائیور نشے کی حالت میں رکشہ چلاتے ہیں، اس دوران وہ رکشے کے اسپیکر پر پوری آواز کھول کر فحش گانے بجاتے ہیں جب کہ ٹریفک قوانین کے مطابق دوران سفر مسافر و مال بردار گاڑیوں میں ریکارڈنگ پر پابندی عائد ہوتی ہے۔
سڑکوں پر ٹریفک پولیس کے افسران و اہل کار موجود ہوتے ہیں لیکن وہ موٹر سائیکل اور کار سواروں کا شکار کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اس لئے چھ سیٹر رکشہ ڈرائیوروں کی تمام لاقانونیت سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مسافروں کا کہنا کہ ڈرائیور اپنی مرضی سے کرایہ طلب کرتے ہیں، کسی مسافر کے احتجاج پر نہ صرف یہ خود اسے زدوکوب کرتے ہیں بلکہ دیگر چھ سیٹر رکشے والے بھی وہاں اپنے رکشے روک کر احتجاج کرنے والے مسافر کی گوشمالی کرتے ہیں۔خواتین مسافروں کے ساتھ بھی ان کا سلوک غیر مہذبانہ ہوتا ہے۔ وہ ان سے بدکلامی کے علاؤہ گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ان کی ڈرائیونگ انتہائی وحشیانہ انداز کی ہوتی ہے۔ انہیں اس کی قطعی پروا نہیں ہوتی کہ رکشے میں سفر کرنے والے مسافروں پر کیا بیت رہی ہے۔ سڑک پر یہ تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑتے ہیں۔ موٹر سائیکل سواروں کو سائڈ مار کر گرانا اور کاروں کو ٹکر مارنا ان کے لئے معمول کی بات ہے۔ موٹر سائیکل سواروں یا کار سواروں کے ساتھ ان کا رویہ "الٹا چور، کوتوال کو ڈانٹے" کے مصداق ہوتا ہے کیوں کہ کار یا موٹر سائیکل سواروں سے تلخ کلامی کے دوران "چنگچی رکشہ مافیا" کے کارندے سڑک بلاک کرکے میدان کار زار میں کود پڑتے ہیں اور غنڈہ گردی کا عملی مظاہرہ کرکے مسافروں میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں کہ آئندہ کسی مسافر کو بھی ان کی من مانیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ ہو۔
چھ سیٹر رکشہ ڈرائیوروں کے پاس نہ تو ڈرائیونگ لائسنس ہوتا ہے نہ رکشے کے کاغذات کیوں کہ اڈے کا ٹھیکیدار ان کا حاکم وقت ہوتا ہے، اس لئے انہیں قانون کے محافظوں کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ ڈمپر مافیا اور ٹرالر و ٹینکرز کی ہلاکت خیزیوں کے خلاف شہریوں کے آواز اٹھانا شاید صوبائی حکومت کے مزاج پر گراں گزرا ہے اسی لئے اس نے ڈمپر ٹرالر کے ساشے، چھ سیٹر رکشوں پر پابندی کا بھی حتمی قدم اٹھایا ہے۔ حکومتی فیصلے کے ہم بھی حامی ہیں لیکن ہم اس سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص طبقے کو سزا دینے کے لئے مںتقمانہ کارروائی کرنے کی بجائے ان کو جائے روزگار تک آمدورفت کے متبادل ذرائع مہیا کریں۔
تبصرہ لکھیے