اسلامی شریعت میں کسی حکم کی فرضیت تین اصولی تقاضوں پر قائم ہے: سبب کا ظہور، شرط کا تحقق، اور مانع کا ازالہ۔ کوئی ہدایت اسی وقت لازم قرار پاتی ہے جب اس کا حقیقی سبب سامنے آ جائے، عمل کے لیے مطلوبہ استطاعت میسر ہو، اور راستے کی رکاوٹیں دور کر دی گئی ہوں۔
یہ اصول نہ کسی فقہی اصطلاح کی اختراع ہے، نہ اجتہادی قیاسات کا نتیجہ؛ بلکہ انسانی عقل اور فطرت کا وہ بدیہی مطالبہ ہے جس پر دین کا پورا عملی نظام استوار ہے۔ شریعت نے اپنے احکام کی ترتیب میں اسی فطری حقیقت کو بنیاد بنایا ہے، اور فقہ اسلامی نے دینی احکام کی نوعیت اسی عقلی اصول کی روشنی میں مرتب کی ہے۔
عقل جب کسی حکم کا تجزیہ کرتی ہے تو فطری طور پر تین بنیادی سوالات اٹھاتی ہے: کیا اس مطالبے کے پس منظر میں کوئی معقول سبب موجود ہے، کیا اس پر عمل کرنا عملی طور پر ممکن ہے، اور کیا کوئی ایسی رکاوٹ حائل ہے جو عمل کے امکان کو معدوم کر دے۔ انہی بنیادوں پر انسان کسی دینی یا اخلاقی مطالبے کی معقولیت یا عدم معقولیت کا فیصلہ کرتا ہے، اور اپنی ذمے داری کے دائرے کا تعین کرتا ہے۔ یہی فطری ترتیب ہے جس پر انسانی ذمے داری کی اساس استوار ہے۔
اسلامی شریعت نے انسانی عقل کی اسی فطری ترتیب کو اپنے احکام کی بنیاد بنایا ہے۔ کوئی دینی فریضہ حقیقت کے ظہور کے بغیر لازم قرار نہیں دیا گیا، نہ استطاعت کی عدم موجودگی میں عمل لازم ٹھہرایا گیا، اور نہ مانع کے باقی رہنے کی حالت میں ذمے داری برقرار رکھی گئی۔ دین جب انسانی شعور سے خطاب کرتا ہے تو اسی فطری منہاج کی رعایت کرتا ہے، یعنی اپنی ہر دعوت اور ہر تقاضے کو انسانی عقل کی ساخت کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔
چنانچہ جب دین کسی چیز کا حکم صادر کرتا ہے تو یا تو اس کے پس منظر میں سبب کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیتا ہے، یا خود حکم کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ اس سے علت بدیہی طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہر دینی مطالبے میں عمل کی استطاعت اور خارجی موانع کا لحاظ بھی اصولی طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے، تاکہ کوئی ذمہ داری انسانی طاقت اور عملی امکان کی حدود سے باہر نہ ہو۔
انہی اصولوں کی عملی تطبیق جہاد کے باب میں پوری وضاحت کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔ ظلم اور زیادتی کا ظہور جہاد کی مشروعیت کا بنیادی سبب ہے؛ مطلوبہ قوت، وسائل اور اجتماعی قیادت کی دستیابی اس کے وجوب کے لیے لازم شرط ہے؛ اور فساد یا یقینی ناکامی کا اندیشہ ایسا مانع ہے جو اس فرضیت کو ساقط کر دیتا ہے۔
چنانچہ جہاد کا وجوب ان تمام عناصر کی تکمیل پر موقوف ہے۔ محض ظلم اور عدوان کا واقعہ بذاتِ خود قتال کو لازم نہیں کرتا جب تک کہ عمل کی صلاحیت میسر نہ ہو اور راہ کی رکاوٹیں دور نہ کر دی گئی ہوں۔
فقہ اسلامی کے جلیل القدر عالم امام شاطبیؒ نے اسی حقیقت کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا ہے:
"وجود السبب لا يستلزم الحكم حتى توجد الشروط وتنتفي الموانع"(الموافقات، 2/10)
"کسی حکم کا سبب موجود ہو جانا، خود حکم کے لازم ہونے کو مستلزم نہیں ہوتا جب تک کہ تمام شرائط پوری نہ ہو جائیں اور تمام موانع دور نہ ہو جائیں۔"
دوسری چیز استطاعت ہے۔
اسی اصولی ترتیب کی روشنی میں قرآن مجید قتال کے معاملے میں بھی مطلوبہ استطاعت پر بار بار زور دیتا ہے۔ بدر کے موقع پر مومنین کو قتال پر ابھارتے ہوئے فرمایا:
"اے نبی، مومنوں کو قتال پر ابھاریے؛ اگر تم میں بیس ثابت قدم ہوں تو دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں سو ہوں تو ایک ہزار پر غالب آئیں گے۔"(الأنفال: 65)
تاہم جب مسلمانوں کی عملی قوت کو مدنظر رکھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف کا اعلان فرمایا:
"اب اللہ نے تم پر سے بوجھ ہلکا کر دیا اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں ایک سو صابر ہوں تو دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے۔"(الأنفال: 66)
تیسری چیز موانع ہیں۔
یہی اصول قتال کے نتائج پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر قتال کے نتیجے میں فساد کا غلبہ یا یقینی ناکامی کا اندیشہ ہو تو یہ مانع قرار پاتا ہے، اور اس صورت میں جہاد کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ امام ابن تیمیہؒ نے اس حقیقت کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا ہے:
"فَإِذَا تَعَيَّنَ الْجِهَادُ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ مَصْلَحَةٌ رَاجِحَةٌ عَلَى الْمَفْسَدَةِ، لَمْ يَجِبْ الْخُرُوجُ، بَلْ قَدْ يَحْرُمُ" (منهاج السنۃ النبویۃ، 4/314)
یعنی: اگرچہ جہاد فرض ہو چکا ہو، لیکن جب فساد کا اندیشہ غالب آ جائے اور مصلحت مغلوب ہو جائے تو قتال نہ صرف واجب نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات ممنوع ہو جاتا ہے۔
اسی اصول کو قرآن مجید نے عمومی ضابطے کے طور پر یوں بیان فرمایا ہے:
"اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔"(البقرہ: 286)
اور قتال کی تیاری کے باب میں واضح ہدایت دی گئی:
"اور ان کے مقابلے کے لیے جس حد تک قوت فراہم کر سکتے ہو، فراہم کرو۔"(الأنفال: 60)
مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں بھی، جب اہل ایمان ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے، تب قتال کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ انہیں صبر اور نماز پر استقامت کی تلقین کی گئی:
"اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم رکھو۔"(النساء: 77)
بعض لوگ نماز میں تیمم کی رعایت سے یہ قیاس کرتے ہیں کہ جس طرح پانی نہ ہونے پر نماز ساقط نہیں ہوتی، اسی طرح استطاعت نہ ہونے کے باوجود قتال بھی فرض رہتا ہے۔ لیکن یہ قیاس محلِ نظر ہے۔ نماز ایک انفرادی عبادت ہے، جس میں پانی کی عدم موجودگی پر تیمم کا بدل مقرر ہے؛ جب کہ قتال ایک اجتماعی فریضہ ہے جو امت کی مجموعی طاقت پر موقوف ہے۔ اگر استطاعت اور قوت موجود نہ ہو قتال کی فرضیت عملاً معلق ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ایسی حالت میں اہل ایمان کو صبر، ہجرت اور صلح کا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت دی، اور دشمن کے مقابلے میں قوت کی تیاری پر زور دیا، تاکہ جب مطلوبہ استطاعت حاصل ہو تو قتال کی ذمہ داری ادا کی جا سکے۔چنانچہ قتال کا فیصلہ کسی فرد یا گروہ کے سپرد نہیں کیا گیا، بلکہ اسے اجتماعی قیادت اور ریاست کے اختیار میں رکھا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو، اور اطاعت کرو رسول کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔"
(النساء: 59)
مزید فرمایا:
"اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو وہ اسے اڑا دیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ اسے رسول اور اپنے میں سے اہلِ امر کے حوالے کر دیتے تو ان میں سے وہ لوگ جو استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسے جان لیتے۔" (النساء: 83)
یہ آیات اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہیں کہ قتال جیسے نازک معاملات میں اقدام کا اختیار صرف اہلِ حل و عقد کو حاصل ہونا چاہیے، تاکہ فیصلے حکمت، تدبر اور اجتماعی مصلحت کی بنیاد پر کیے جائیں۔
اسی اصول پر شریعت نے قتال کے وجوب کو بھی سخت شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ظلم اور زیادتی اگرچہ جہاد کی غایت کا بیان اور مشروعیت کا بنیادی سبب ہیں، لیکن قتال کا وجوب محض سبب کے ظہور پر موقوف نہیں رکھا گیا۔ اس کے لیے مطلوبہ استطاعت کا تحقق، موانع کا ازالہ، حالات کی رعایت، اور غالب مصلحت کی موجودگی ناگزیر شرط قرار دی گئی ہے۔
لہٰذا جہاد کا حکم فرد کو نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو مخاطب کرتا ہے، اور آج کے دور میں یہ اجتماعی نظم ریاست کی صورت میں منظم ہو چکا ہے۔ اس بنا پر قتال کا فیصلہ بھی کسی فرد یا گروہ کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا گیا، بلکہ اسے اجتماعی قیادت اور ریاستی نظم کے اختیار میں رکھا گیا ہے۔ چنانچہ استطاعت کی تعیین اور اقدام کے فیصلے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے۔
شریعت نے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے تاکہ امت انتشار اور ہلاکت سے محفوظ رہے اور دین کا عملی نظام حکمت، عدل اور توازن پر استوار ہو۔ اس طے شدہ نظم کے برخلاف، علما کی طرف سے انفرادی رائے یا محض فتوے کی بنیاد پر جہاد کی فرضیت کا اعلان نہ صرف شریعت کے مقرر کردہ ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے، بلکہ دینی معاملات میں ایسا غیر شرعی اقدام ہے جو امت کو مزید افتراق اور فساد کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے