ہوم << زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے - حبیب الرحمن

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے - حبیب الرحمن

کتنا دل دکھ رہا ہے یہ لکھتے ہوئے کہ ''ایک تھے پروفیسر خورشید احمد''۔ بے شک وہ ''تھے'' ہو گئے کہ ہم سب کو ایک دن ''تھے'' ہو ہی جانا ہے لیکن وہ ہر اسلام پسند فرد و بشر کے دل و دماغ میں ہمیشہ ''ہیں '' ہی رہیں گے۔ ایک ایسا خورشید جو 23 مارچ 1932ء میں دہلی (متحدہ ہندوستان) میں پید ہوا اور مشرق سے طلوع ہونے والا یہ سورج اپنے علم کی کرنوں کو سارے عالم میں پھیلاتا ہوا مغرب میں 13 اپریل 2025ء کو برطانیہ میں غروب ہو گیا۔

جماعت اسلامی میں اگر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بعد کسی نے اسلام اور اس کی تعلیمات کو ہر بشر کی دہلیز تک درست درست انداز میں پہنچانے کا فریضہ اپنی آخری سانوں تک انجام دیا ہے تو وہ پروفیسر خورشید احمد ہی ہیں جن کے قلم سے نکلے کھرب ہا کھرب الفاظ صفحہ قرطاس پر یوں ثبت ہو کر رہ گئے ہیں کہ ان کی روشنی سے اگر دنیا بھر کے اور خصوصاً پاک و ہند کے مسلمان چاہیں تو وہ بنجر زمینوں کو بھی سونا اگلنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ان کے قلم و دہن سے پھوٹنے والی روشنی سے بیسیوں کتابیں، سیکڑوں خطبات اور ہزاروں مضامین بلاشبہ ان مشعلوں کی طرح ہیں جن سے وہ راہیں جو کبھی ظلمتوں اور تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں، روشنیوں سے جگمگاتی ہوئی نظر آتی ہیں اور اگر ہر جانب بکھری ان روشنیوں سے موجودہ اور نئی نسل مستفید ہونا چاہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسلامی معیشت کو ایسا مینارہ نور بنانے میں کامیاب ہوجائے جس سے دنیا بھر کے انسان اجالے ہی اجالے حاصل کر سکیں۔

پروفیسر خورشید احمد ایک ایسا اسلامی ذہن رکھتے تھے جو ایک روایتی عالمِ دین کی روایتی انداز فکر سے بہت ہی بلند تر تھا۔ ان کی نظر کبھی لباس و وضع قطع پر نہیں رہی کہ کرتے کی پیمائش کیا ہونی چاہیے، داڑھی کی تراش خراش کس انداز کی ہونے چاہیے یا شلوار پائیجامہ کتنا اوپر یا نیچے کی جانب رکھنا عین شریعت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے نزدیک ایک انسان کو بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ ہر نقطہ نظر سے انسان ہی نظر آئے، کوئی مافوق البشر ہستی دکھائی نہ دے۔وہ اپنے ایک خطبے میں (جس کو بعد میں ایک مضمون کی شکل بھی دیدی گئی تھی) ارشاد فرماتے ہیں کہ ''انسان بنیادی طور پر دو ایسی ضروریات کا محتاج ہے جس سے وہ ایک لمحے کیلئے بھی صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ ایک طرف اسے ان اشیاء و وسائل کی ضرورت درپیش ہے جو اس کی مادی احتیاجات کو پورا کریں، جن کے ذریعے وہ اپنے جسم و روح کے رشتے کو قائم و اسطوار کرے اور بقائے حیات کے مادی تقاضوں کو پورا کرے۔ دوسری طرف وہ اس ہدایت و رہنمائی کا محتاج ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی تشکیل صحت مند بنیادوں پر کر سکے اور اس طرح انسانیت کے حقیقی مقاصد کی بوجہِ احسن تکمیل کر سکے''۔ (بحوالہ مضمون۔ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم بحیثیت داعی الی الحق۔ 1962)۔

سنہ 1991ء میں پارلیمنٹ میں ایک بل پاس ہوا اور ایکٹ مان بھی لیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے نفاذ پر بحث کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا جو تا حال جاری ہے۔ مختلف قسم کے اعتراضات اس پر ہر جانب سے اٹھائے گئے۔ ایک ایسا ملک جس کو حاصل ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ اس میں حاکمیت الٰہیہ کو ہر صورت نافذ کیا جائے گا، بد قسمتی سے ہوا یوں کہ جن سے آزادی حاصل کی گئی، آزادی کے اگلے لمحے ان ہی کی غلامی قبول کر لی گئی اور خلافت کا اعلان کرنے کی بجائے، گورنرجنرلی قبول کر لی گئی۔ وہی ذہنیت 90 کی دہائی تک چلتی رہی۔ خدا خدا کرکے پارلیمان نے ایک بل منظور کر بھی لیا تو اس پر اعتراضات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ جو جو اعتراضات اٹھائے گئے ان کا جواب دینا بہر صورت ضروری تھا۔ جناب پروفیسر خورشید احمد نے اپنے ایک طویل مضمون ”نفاذِ شریعت ایکٹ 91ء پر اعتراضات کا ایک علمی محاکمہ۔۔۔ بحوالہ ترجمان القرآن جلد 116“

اٹھائے جانے والے سارے اعتراضات کے جواب میں لکھے جانے والے اس مضمون میں ایک جگہ بہت وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ”پاکستان کے دستور 1973ء میں اسلام کو مملکت کا سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا ہے(دفعہ 2)۔ پھر 1985ء میں قرار دادِ مقاصد کو دستور کا قابلِ تنفیذ حصہ قرار دیا گیا ہے (دفعہ 2۔ الف)۔ پارلیمنٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ ملک میں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ نیز یہ کہ تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق تبدیل کیا جائے گا (دفعہ 227)۔ ملکی قوانین کے احکام اسلام سے متصادم یا مطابق ہونے کا فیصلہ کرنے کیلئے 1980ء میں دفاعی شرعی عدالت قائم کی گئی (دفعہ 203۔ الف)۔ ان تمام دستوری دفعات کا تقاضہ ہے کہ شریعت کو ملک کا بالا تر قانون صاف لفظوں میں تسلیم کیا جائے تاکہ اس امر کو تعبیر کے نتیجے میں اخذ نہ کیا جائے بلکہ دستور کی واضح نص کے ذریعے متعین کر دیا جائے۔ 1985 میں آٹھویں ترمیم کے وقت اسی امر کا مطالبہ کیا گیا تھا، اور اُس وقت قومی اسمبلی نے علیحدہ علیحدہ قراردادوں کے ذریعے اس اصول کو تسلیم کیا تھا کہ قرآن و سنت ملک کا بالاتر قانون تسلیم کئے جائیں گے''۔ افسوس یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ یہاں حکمرانی قرآن و سنت ہی کی ہوگی، ایکٹ بن جانے کے باوجود بھی اُس تصورِ حکمرانی سے تا دمِ تحریر محروم ہے۔

پرفیسر خورشید احمد کا مختصر تعارف
''مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھ اور علمی وارث، جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر بزرگ سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر، سینیٹرپروفیسر خورشید احمد 93سال کی عمر میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، مرحوم ماہر اقتصادیات،انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور اسلامک فاؤنڈیشن برطانیہ کے بانی تھے پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔آپ نے قانون اور اس کے مبادیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں اکنامکس اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، جبکہ ایجوکیشن میں یونیورسٹی کی طرف سے انہیں اعزازی ڈگری عطا کی گئی۔پروفیسر خورشید احمد 1949 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے۔ 1953ء میں ناظم اعلٰی منتخب کیا گیا۔ 1956ء میں آپ جماعت اسلامی میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئے۔آپ 1985ء، 1997ء اور 2002 ء میں سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اورسینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام کیا۔پروفیسر خورشید 1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی بنے۔ وہ حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے۔ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے 1955ء سے لے کر 1958ء تک کراچی یونیورسٹی میں پڑھایا۔یونیورسٹی آف لیسٹر میں ریسرچ سکالر بھی رہے ہیں۔ 1983ء سے 1987ء تک آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین رہے۔1984ء سے 1992ء تک آپ انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ اِن اسلامک اکنامکس لیسٹر کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن رہے جبکہ1979 ء سے 1983 ء تک شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے وائس پریزیڈنٹ رہے۔دوران تعلیم پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی لائبریری میں اچھی کتب جمع کرنے کا شوق بھی رہا اور طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کے پاس اچھی خاصی لائبریری رہی۔ 1965ء میں، ان کے پاس 20ہزار کتابیں تھیں جن میں سے کچھ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کو عطیہ کیں۔ لندن میں بھی ان کے پاس 7یا 8ہزار کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ اسلامک سنٹر فاؤنڈیشن کو عطیہ کیا اور یہاں بہت سی کتب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز اسلام آباد کے سپرد کیں۔پروفیسر صاحب نے اسلام، تعلیم، عالمی اقتصادیات اور اجتماعی اسلامی معاشرے کے حوالے سے بہت سا کام کیا اور اسی وجہ سے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں متعدد ممالک، اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بہت سے اعزازات دیئے گئے۔ آپ سوسے زائد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں ذاتی یا نمائندے کی حیثیت سے شریک ہوچکے ہیں۔ پہلی مرتبہ اسلامی معاشیات کو بطورعلمی شعبے کے ترقی دی۔ اس کارنامے کے پیش نظر 1988ء میں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ عطاکیا گیا۔ آپ کے کارناموں کے اعتراف میں 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ عطاکیا گیا۔ اسلامی اقتصادیات ومالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں انہیں جولائی 1998ء میں پانچواں سالانہ امریکن فنانس ہاؤس لاربوا یوایس اے پرائز دیا گیا۔پروفیسر خورشید احمد صاحب کو اقتصادیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی بنک نے 1990ء میں اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا،جبکہ بین الاقوامی اسلامی خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے 1990ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ نشانِ امتیاز 2010ء میں عطا کیا۔پروفیسر خورشید احمد پر ملائشیاء ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ہیں۔ 1982ء میں ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملائے یونیورسٹی آف ملائشیاء نے، 1983ء میں تعلیم پر لغبرہ یونیورسٹی (لوف بورو) برطانیہ نے، 2003ء میں ادبی شعبہ میں اور نیشنل نیشنل یونیورسٹی ملائشیاء نے 2006ء میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی اے یچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں عطا کیں۔پروفیسر صاحب متعدد نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل وجرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں ستر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ کئی رسائل میں اپنی نگارشات عطا کر چکے ہیں۔ دوسری بہت سی مصروفیات کے علاوہ فی الوقت آپ جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر تھے۔پروفیسرخورشید انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد، اورا لیسٹر(یوکے)کی اسلامک فاؤنڈیشن کے بانی چیئرمین۔ اسلامک سینٹر زاریا (نائجیریا)،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، فاؤنڈیشن کونسل، رائل اکیڈمی فار اسلامک سولائزیشن عمان(اردن)کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن جبکہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی اور لاہور کے وائس پریذیڈنٹ تھے۔
المختصر ان کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

Comments

Click here to post a comment