ہوم << غزہ امید ہے ،مایوسی نہیں - رفعت آراء

غزہ امید ہے ،مایوسی نہیں - رفعت آراء

FILE - Palestinian women and their children walk though destruction in the wake of an Israeli air and ground offensive in Jebaliya, northern Gaza Strip after Israeli forces withdrew from the area, on May 31, 2024. (AP Photo/Enas Rami)

دنیا کے نقشے پر فلسطین ایک ایسا خطہ ہے جس نے صبر، استقامت اور قربانی کی عظییم مثالیں قائم کی ہیں موجودہ حالات میں جب غزہ مسلسل ظلم وبربریت کا شکار ہے مسلمانان عالم کے دل زخمی ہیں مگر ان زخموں سے نکلنے والی چیخیں ہمیں ایک نئی امید نئی راہ اور نئی بیداری کی طرف بلاتی ہیں.

دنیا میں کچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جو صرف جغرافیائی حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ تاریخ، ایمان اور قربانی کی علامت بن جاتے ہیں۔ فلسطین، اور خاص طور پر غزہ، ایسا ہی ایک مقام ہے۔ آج غزہ میں ظلم کی انتہا ہو چکی ہے، بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے، لیکن ان مظالم کے باوجود وہاں کی عوام جس استقامت، حوصلے اور ایمان سے کھڑی ہے، وہ پوری اُمتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جب دنیا کی خاموشی ہمیں مایوس کرتی ہے، تب غزہ کی مزاحمت ہمیں امید دلاتی ہے کہ ابھی ایمان زندہ ہے، اور یہ روشنی اندھیروں کو شکست دے گی۔

غزہ اس وقت انسانی المیے کا شکار ہے۔ اسرائیلی بمباری، غذائی قلت، بجلی، پانی اور طبی سہولیات کی شدید کمی نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام مظالم کے باوجود غزہ کی عوام نے ہتھیار ڈالے؟نہیں

غزہ اس وقت اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہا ہے۔ ہزاروں شہید، لاکھوں بے گھر، تباہ شدہ عمارتیں اور بنیادی سہولیات کی کمی کے باوجود، وہاں کے لوگ اپنے حق کے لیے کھڑے ہیں۔ ان مظلوموں کی استقامت مسلمانوں کے لیے پیغام ہے کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن چھپی ہوتی ہے۔

دنیا نے دیکھا کہ بچے کلمہ پڑھتے شہید ہو رہے ہیں، مائیں اپنے بیٹوں کو دفناتے ہوئے "الحمدللہ" کہتی ہیں۔ یہ وہ روحانی طاقت ہے جو صرف ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں اس حوصلے سے سبق لینا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف بقا نہیں، بلکہ حق کے لیے کھڑے ہونا ہے

مایوسی کفر ہے۔ غزہ کے مظلوموں نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بدترین حالات میں بھی اللہ پر یقین اور صبر کے ساتھ جینا ہی اصل کامیابی ہے۔ ہمیں ان کے حوصلے سے سبق لیتے ہوئے مایوسی کے بجائے امید کا چراغ جلانا ہے۔

ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان مظلوموں کی آواز بنیں۔ میڈیا، سوشل میڈیا، دعاؤں، مالی امداد، اور سفارتی دباؤ کے ذریعے ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایک مسلمان کا درد دوسرے مسلمان کا درد ہے، اور یہی اُمت کے اتحاد کی بنیاد ہے۔

آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ غزہ کے بچوں سے سبق سیکھیں۔ علم، کردار اور نظریاتی بیداری کے ذریعے وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ فلسطین کی جنگ صرف زمین کی نہیں، نظریے اور اقدار کی جنگ ہے۔

قرآن و سنت ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے، مظلوم کا ساتھ دینے، اور حق کی حمایت کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ صورت حال ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عدل، مساوات اور انسانیت کی فلاح شامل ہے:

غزہ کی صورت حال نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ ہر مذہب، ہر خطے کے لوگ غزہ کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ بیداری اس بات کی علامت ہے کہ ظلم جتنی بھی شدت سے ہو، حق کی صدا دبائی نہیں جا سکتی۔

غزہ کی موجودہ حالت ہمیں مایوس کرنے کے لیے نہیں، جگانے کے لیے ہے۔ ہر شہید بچہ، ہر مظلوم ماں، ہر تباہ شدہ عمارت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اندھیری رات کے بعد فجر ضرور طلوع ہوتی ہے.

جب ہم غزہ کی عورتوں کو شہداء کے جنازوں پر "لبیک یا اقصیٰ" کہتے دیکھتے ہیں، جب معصوم بچے زخمی حالت میں بھی مسکرا کر "اللہ اکبر" پکارتے ہیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کی ایمان کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ دنیا کی طاقتیں مل کر بھی ان کے حوصلے کو نہیں توڑ سکتیں۔ ان کا پیغام واضح ہے: ہم مٹی سے محبت کرتے ہیں، ہم قبلہ اول کے محافظ ہیں، ہم مٹ جائیں گے مگر جھکیں گے نہیں۔ یہ استقامت ہمیں سکھاتی ہے کہ مسلمان اگر بیدار ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی.

مایوسی شیطان کا ہتھیار ہے، جبکہ امید مؤمن کا ہتھیار۔ غزہ کی موجودہ حالت ہمیں بظاہر اندھیروں میں لپٹی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی اندھیرے امید کی کرن کو نمایاں کر رہے ہیں۔ ہر شہادت ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں، اور مظلوم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ناامیدی کے بجائے اپنے ایمان کو مضبوط کریں ۔

غزہ کی موجودہ صورتِ حال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو، تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ لیکن آج ہم بحیثیت امت خاموش کیوں ہیں؟ ہمیں صرف دعا پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو متحرک کرنا، سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنا، مالی مدد فراہم کرنا، اور اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہر فرد اپنی سطح پر تبدیلی لا سکتا ہے، بس نیت خالص ہونی چاہیے۔آج کا نوجوان اگر اپنی صلاحیتوں کو درست رخ دے، تو وہ دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ غزہ کے بچے، جو جنگ کے ماحول میں بھی علم حاصل کر رہے ہیں، ہمیں پیغام دیتے ہیں کہ تعلیم اور نظریاتی بیداری ہی اصل قوت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار، علم، اور عمل سے ایک ایسی نسل تیار کریں جو ظلم کے خلاف کھڑی ہو، حق کے لیے آواز بلند کرے، اور اسلامی اقدار کا علمبردار بنے.

اسلام ہمیں مظلوم کی حمایت کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ (النساء: 75)

ترجمہ: "اور تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کرتے ہیں..."

یہی آیت آج میں جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ غزہ کی موجودہ حالت دراصل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک عملی امتحان ہے، کہ ہم کس حد تک اپنے دین پر عمل کر رہے ہیں۔

دنیا میں جہاں خاموشی چھائی ہوئی ہے، وہیں کئی غیر مسلم اقوام اور ادارے بھی غزہ کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ عالمی بیداری اس بات کی علامت ہے کہ حق کا نور دلوں تک پہنچ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد، حتیٰ کہ مغربی ممالک کے باشندے بھی غزہ کے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ ایک نئی امید ہے، کہ شاید انسانیت ابھی زندہ ہے، اور ظلم کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔

غزہ صرف ایک شہر نہیں، یہ اُمتِ مسلمہ کا ضمیر ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی کمزوریاں، اپنی غفلت، اور اپنی بیداری کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا، کیونکہ غزہ والوں نے ہمیں بتایا ہے کہ روشنی کی شروعات اندھیرے میں ہی ہوتی ہے۔ آئیں، ہم اپنی دعاؤں، عمل، علم، اور کردار کے ذریعے غزہ کےمظلوموں کا ساتھ دیں اور دنیا کو بتا دیں کہ مسلمان زندہ ہے، اور جب تک حق باقی ہے، اُمید باقی ہے۔