" ایک آیت بھی تم تک میری جانب سے پہنچے تو اسے آگے پہنچا دو" ( حدیث شریف صحیح بخاری).
علم دین سیکھ کر جو خواتین اپنے قول و فعل ، زبان وقلم سے دین کی تعلیمات کے ابلاغ کی کوشش کرتی ہیں وہ داعی خواتین اس لحاظ سے دو دھاری تلوار کی سی رہگزر کی مسافر ہوتی ہیں کہ گھر میں یا خاندان میں کسی اونچ نیچ کی بھنک بھی کسی کو پڑ گئی تو فوراً اعتراض کردیا جاتا ہے کہ بھئی تم تو فیل ہوگئیں کہ اپنے گھرانے کو ہی بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ! حالانکہ کون جانتا ہے کہ کس نے کتنی جدوجہد کس کس محاذ پر کی ہے؟ ہمارے معاشرے میں رواج ہے کہ والدین بیٹے کی تربیت اپنی مرضی کے مطابق نہ کرپائیں تو کہتے ہیں کہ اس کی شادی کردو ،خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گا ۔ایک ایمان دار بیوی اپنے مجازی خدا کو کس حد تک بدل سکتی ہے اس کی کوئی گارنٹی ہوتی تو حضرت آسیہ جیسی ایمان والی نے فرعون کو بدل دیا ہوتا !!
اولاد کی کوئی کمی کوتاہی معاشرے کے سامنے آجاۓ تو بھی ماں ہی قصوروار ہے جو تربیت کرنے میں ناکام رہی۔ اب یہ کون سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ موجودہ دور کے بچے ماؤں سے زیادہ ماحول سے اثر لیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے ،میڈیا سے ،انٹرنیٹ سے اور جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے وہاں رشتہ داروں سے بھی ۔ کئی گھرانوں میں بچے کا نام رکھنے سے لے کر ،کس سکول میں داخل کروانا ہے ،کالج میں کون سے سبجیکٹ رکھوانے ہیں ،رشتہ کہاں کرنا ہے ،یہ بھی رشتے دار ہی فیصلے دے رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔ماں تو بعض اوقات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے کہ سسرالی رشتے دار اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کہاں انھیں میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوانے کا موقع ملے اور وہ تماشا دیکھیں۔
ماں جسے بچے کو سلاۓ بغیر نیند نہیں آتی وہ بھلا کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ وہ خود جنت میں جاۓ مگر اس کے بچے ساتھ نہ ہوں ؟ کوئی باشعور ماں اپنے بچے کی تربیت سے غافل نہیں رہ سکتی مگر اسے بہت سی معاشرتی برائیوں سے اولاد کو بچانے کی چومکھی لڑائی تنہا لڑنا پڑتی ہے ۔کسی حد تک حضرت نوح علیہ السلام نے بھی ایسی ہی جدوجہد اپنے بیٹے کو بچانے کی خاطر کی تھی مگر ان کا بیٹا مان کر نہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ان کی شان پیغمبری برقرار رہی ۔ ہم کوشش کرنے کے مکلف ہیں ، نتائج کے نہیں۔
کسی داعی کو مشکل میں دیکھیں تو اپنی دعا سے اس کی مدد کریں ،نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کے حوصلے بھی نہ توڑیں !
تبصرہ لکھیے