ہوم << ارض فلسطین : آگ میں جلتی صحافت، سسکتی انسانیت - برہان احمد صدیقی

ارض فلسطین : آگ میں جلتی صحافت، سسکتی انسانیت - برہان احمد صدیقی

جب کسی صحافی کو زندہ جلا دیا جائے، تو یہ صرف ایک شخص کی جان کا نقصان نہیں ہوتا…
بلکہ صحافت اور صحافت کے عالمی قوانین کا بے کفن جنازہ ہوتاہے۔
غزہ میں صحافت ایک خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔

معاف کیجیے، میں صرف صحافت کی بات نہیں کر رہا…
میں اُن بچوں کی بات بھی کر رہا ہوں جن سے کھیلنے کا حق چھین لیا گیا،
جن کے ہاتھ میں کھلونے ہونے چاہیے تھے،
لیکن وہ پانی کی ایک بوند اور روٹی کے نوالے کو ترس رہے ہیں۔

میں اُن گھروں کی بات کر رہا ہوں جو ملبہ بن گئے،
اُن اسکولوں اور ہسپتالوں کی، جنہیں زمیں بوس کر دیا گیا۔

اور اُن حقوق و اقدار کی، جن کے بارے میں ہم بچپن سے سنتے آئے —
جو اب غزہ کے ملبے تلے دفن ہو چکے ہیں۔

غزہ کی وادیوں میں اب ہنسی نہیں سنائی دیتی،
بس بچوں کی چیخیں، بھوک اور پیاس کی فریادیں،
اور اُن ماں باپ کی آہیں، جنہوں نے اپنے بچوں کو ملبے تلے دفن ہوتے دیکھا۔

ہم دل دہلانے والے انسان سوز بے رحم واقعات سے بے خبر رہتے لیکن بے شمار صحافیوں نے ہر طرح کی قربانی پیش کی اور صحافت کا حق ادا کردیا،
صحافی صرف خبریں نہیں دیتے —
بلکہ وہ گواہ ہوتے ہیں…
ظلم، قتل اور ناانصافی کے گواہ۔
لیکن آج غزہ میں وہ بھی محفوظ نہیں،
انھیں ٹارگیٹ بنا کر مارا جا رہا ہے، چاہے وہ پریس کی جیکٹ پہنے ہوں یا صحافتی کارڈ لٹکائے ہوئے ہوں۔

اسماعیل الغول، شیرین ابوعاقلہ، حمزہ وائل الدحدوح… کی تصویریں ا ب بھی آنکھوں کے سامنے ہیں:
سب کو گولی مار دی گئی،
صرف اس لیے کہ وہ کیمرے سے سچ دکھا رہے تھے۔
صحافی حسام شبات کا جملہ… جو ہمیشہ یاد رہے گا:
"میں اور میرے ساتھی موت کا انتظار کر رہے ہیں"
کیونکہ غزہ کے صحافی… ہر لمحے موت کے ساتھ جیتے ہیں۔

پھر بھی وہ رکے نہیں،
وائل الدحدوح کی مثال لے لیجیے —
جن کی بیوی اور بچے ایک بمباری میں شہید ہو گئے،
لیکن وہ چند گھنٹے بعد کیمرہ اٹھا کر دوبارہ محاذ پر تھے۔
کیا یہ صبر نہیں؟
کیا یہ صحافت کا حقیقی چہرہ نہیں؟

اور پھر آیا وہ دل دہلادینے والا لمحہ…
جب نوجوان صحافی احمد منصور اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے —
زخمیوں کی مدد کر رہے تھے،
لیکن ایک بم نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا —
وہ خود بھی زندہ جل گئے۔
اُن کی وہ تصویر، جس میں وہ آگ کے شعلوں میں لپٹےہیں،
دنیا کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
اور اُسی لمحے ہم نے جانا…
کہ غزہ میں صرف انسان نہیں، بلکہ سچائی کو بھی زندہ جلایا جا رہا ہے۔

لیکن یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔
صحافیوں کے خون نے نیویارک، لندن، برلن، پیرس جیسے شہروں میں عوامی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔
لوگ سڑکوں پر نکلے،
صرف فلسطین کے لیے نہیں،
بلکہ اُس جھوٹ کے خلاف جو برسوں سے میڈیا اور سیاست نے ایک "مقدس پردہ" میں چھپا رکھا تھا۔
اور پھر،
مایکروسافٹ کے سالانہ جشن میں دو باہمت خواتین —
ابتهال ابو سعد اور وانیا اگروال —
اٹھ کھڑی ہوئیں!

ابتهال نے چیخ کر کہا:
"شرم کرو مصطفیٰ! تم جنگ سے فائدہ اُٹھا رہے ہو،
مصنوعی ذہانت AI کو نسل کشی کے لیے استعمال مت کرو،
مایکروسافٹ کے ہاتھ خون سے رنگین ہیں!"

یہ صرف دو خواتین نہیں تھیں —
یہ ہزاروں ضمیروں کی آواز تھیں،
جو دنیا کو یہ پیغام دے رہی تھیں:
"خاموشی بھی جرم ہے۔"

اصل سوال یہ ہے:
جب ظلم ہو رہا تھا… تو آپ کہاں تھے؟
خاموش تھے؟
یا سچ کے ساتھ کھڑے؟