وہ یہودی تھی، مگر مسلم قبرستان میں مدفون ہے۔
وہ جرمن تھی ، مگر اس کی قبر دلی میں ہے اورکتبے پر اردو تحریر ہے ۔
وہ برٹش انڈیا کی "میم صاحب" تھی، مگر پھر جامعہ ملیہ دلی کی "آپا جان" ہوگئی۔
بات ہورہی ہے "گرڈا فلپس بورن" کی، جو جرمنی میں پیدا ہوئی ، تاکہ ہندوستان کی خدمت کرکے یہاں کی مٹی اپناسکے۔
اس کہانی کی شروعات ہوئی جرمنی کے شہر برلن سے، جہاں انڈیا سےآئے تین مسلمان طالب علموں کی دوستی جرمنی نژاد "گرڈا فلپس بورن" سے ہوئی۔ گرڈا ۱۸۹۵ ء میں جرمنی کے ایک اہل ثروت خاندان میں پیدا ہوئی اور اسے زندگی گزارنے ، سمجھنے کے بہتر مواقع میسر آئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے اردگرد موجود دنیا، جنگ، جنگ کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات، صنعتی انقلاب اور دنیا میں پیدا ہونے والی یہود دشمنی کو زیادہ بہتر سمجھ سکتی تھی۔ ہندوستان سے آئے تین نوجوانوں کی دوستی کے دوران اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ہندوستان بھی غلامی، جبر اور استحصال کی منزلوں سے گزر رہا ہے، وہ اس کرب کو سمجھ سکتی تھی۔
بہت سے لوگ دوسروں کے مسائل سمجھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، اور اپنا کاندھا ان کو تسلی دینے کو پیش کردیتے ہیں، مگرآگے بڑھ کر حالات بدلنے میں ان کا ساتھ نہیں دیتے، اور یہی وہ کام ہے جوگرڈا فلپس بورن نے کیا،جب اس کے ہندوستانی دوست ذاکر حسین، محمد مجیب اور عابد حسین اپنے وطن میں مسلمانوں کے لیے ایک جامعہ کا خواب لے کر وطن کو لوٹ گئے تو گرڈا بھی ان کے پیچھے برلن چھوڑ کر ہندوستان چلی آئی تاکہ "جامعہ ملیہ " کی تعمیر اور ترقی میں معاونت کرسکے۔
یہ آسان ہرگز نہ تھا۔
کیا آپ ۱۹۳۰ ء کے عشرے کو ذہن میں لاسکتے ہیں؟ اس وقت یہ ایک عام بات نہ تھی کہ ایک جوان اکیلی لڑکی کی غیر ملکیوں سے دوستی ہو یا وہ اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک چلی جائے اور وہ بھی پڑھنے یا نوکری کرنے نہیں، بلکہ آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے ، اور وہ ملک بھی کوئی ترقی یافتہ، پرامن ملک نہ ہو، بلکہ تحریک آزادی کے نعروں سے گونجتا، برطانوی سامراج سے لڑتا، ہندو مسلم انارکی سے الجھتا ، ہندوستان ہو۔ اس وقت برٹش انڈیا میں بہت کم جامعات موجود تھیں، اور جو تھیں، ان کی اکثریت برطانوی سامراج کی آشیرباد سے چل رہی تھیں۔ایسے میں جامعہ ملیہ دلی کا قیام ایک ایسے خواب کی تعبیر تھا جو مسلمانوں کو سیاست اور عملی زندگی کی دوڑ میں آگے لانے کے لیے دیکھا گیا تھا، جن نوجوانوں نے اس کی بنیاد رکھی انہوں نے ہندوستان کی عملی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا اوربعدِ ازاں ذاکر حسین ۱۹۶۷ء میں ملک کے تیسرے صدر بھی منتخب ہوئے۔
چند ماہ گزرے، اور وہ یہاں رہنے، نئے دوست بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نے ادارے کے پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کردیا اور اِس کے لیے اُس قلیل تنخواہ پر رضامند ہوگئی جو دوسرے اساتذہ لے رہے تھے، اس کا مقصد خدمت تھا اور وہ اسی کو اپنا مقصدِ حیات بناکرآئی تھی۔ پریناو لکھتی ہیں کہ گرڈا نےتعلیم کو بچوں کے لیے دلچسپ اورآسان بنانے کے لیے اپنے اس علم کو استعمال کیا جو انہوں نے جرمنی میں کنڈرگارٹن پڑھاتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ جب اسے بچوں کے ہاسٹل کا وارڈن بنایا گیا تو وہ خود کو "آپا جان" کہلوانے لگی۔ اس نے بچوں کے ساتھ قربت بڑھانے کے لیے ان کے کئی کام اپنے ذمہ لے لیے تھے، جن میں ان کے کپڑے دھونا اور سر میں تیل لگانا جیسے کام بھی شامل تھے تاکہ بچے اس سے جذباتی لگاو محسوس کرسکیں۔ اگر بچے بیمار ہوجاتے تو وہ اس جانفشانی سے ان کا خیال رکھتی کہ شاید ہی ان کو ماں کی کمی محسوس ہوتی ہو۔
فلپس بورن جامعہ کی خواتین کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے اور اپنی آواز بلند کرنے کی ترغیب بھی دیتی تھی۔ جب وہ جامعہ کے بچوں کے جریدے "پیامِ تعلیم" کی ادارتی ٹیم کا حصہ بنی تو لڑکیوں کے مشاغل اور شوق کے متعلق نہ صرف خود لکھا بلکہ دوسری لڑکیوں کی بھی جریدے کے لیے لکھنے کی حوصلہ افزائی کی۔بچوں کےلیے کام کرنے کے علاوہ گرڈا جامعہ کے اخراجات کی بابت چندہ اکٹھا کرنے کے لیے تقاریر لکھتی تھی اور ضرورت پڑنے پر جامعہ کے دیگر تعلیمی اور سیاسی معاملات کو بھی دیکھتی تھی۔ مگر ہندوستا ن آنے کے سات سال بعد اس کے کام میں ایک بڑی رکاوٹ آگئی۔ برطانیہ اور جرمنی کی جنگ شروع ہوئی تو برٹش انڈیا میں موجود جرمن باشندوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور ان میں سے اکثر کو گرفتار کرکے کیمپوں میں مقید کیا گیا جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان تھا۔ پینے کے پانی، کھانے اور کمبلوں کی قلت تھی۔ فلپس بورن کو بھی ۱۹۴۰ء میں ایک ایسے ہی کیمپ کا باسی بنادیا گیا۔ اس کی نظر بندی نے اسے موت کے خوف میں مبتلا کردیا کیوں کہ عین ممکن تھا کہ حکام اسے جرمنی واپس بھیج دیتے جہاں ہٹلر یہودیوں کا قتلِ عام کررہا تھا۔ مگر ان حالات میں بھی اس نے دوسروں کا خیال رکھنے اور مدد کرنے کی روش کو نہ بدلا اور کیمپ میں بیماروں کی تیمارداری اور تفریح طبع کے ہلکے پھلکے پروگرام کرتی رہی۔اسی دوران اسے گیسٹرک السر کی بیماری لاحق ہوگئی، چند دن اسپتال میں رکھنے کے بعد اسے واپس کیمپ لے جایا گیا جہاں وہ اگلے ایک سال تک محصور رہی۔
کیمپ سے رہائی کے بعد گرڈا ، جامعہ کی خدمت میں دوبارہ مشغول ہوگئی مگر اب یہ پہلے جیسا نہیں تھا، کیوں کہ اس کا گیسٹرک السر، کینسر میں تبدیل ہوچکا تھااور جسمانی کمزوری اس کے کئی کاموں کی راہ میں حائل تھی، تاہم وہ "پیامِ تعلیم" میں اپنی تحریروں کے ذریعے بچوں کے ساتھ رابطے میں رہی۔
اپریل ۱۹۴۳ء میں فلپس بورن نے اپنی دنیا میں اپنی آخری سانس لی اور جامعہ کے خاندانوں کے لیے مخصوص قبرستان میں ابدی نیند سوگئی۔ وہ اپنے خاندان سے ہزاروں میل دور تھی مگر ان ہزاروں لوگوں کے درمیان تھی جو اس سے محبت کرتے تھے۔ آج اپنی موت کے ایک لمبے عرصے بعد بھی وہ جامعہ کی راہ داریوں میں "آپا جان" کے نام سے موجود ہے، جہاں ایک ہوسٹل اور ڈے کیئر سینٹر اس کے نام سے منسوب ہے۔
تبصرہ لکھیے