دنیا میں اس وقت تین طرح کے معاشی نظام پائے جاتے ہیں۔
1:سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)
2:اشتراکیت (Communism)
3:اسلامی معاشی نظام
سرمایہ دارانہ نظام:
سرمایہ دارانہ اسلام مخالف نظام ہے، جس کا مرکز امریکہ و یورپ ہیں۔ اس کے بانیوں میں ایڈم سمتھ (Adam Smith)کا نام سر فہرست ہے۔سرمایہ داری محض ایک معاشی نظام ہی نہیں بلکہ ایک نظام حیات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔سرمایہ داری نظام کی بنیاد شخصی ملکیت پر ہے۔ اس اصول کو پروان چڑھانے کے لیے انسان میں موجود فطری خود غرضی کا سہارا لیا گیا ہے۔ ایک شخص اپنے سرمایہ کو جب چاہے، جس طرح چاہے اور جہاں چاہے خرچ کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ سود اس نظام کی بنیادی اکائی ہے۔نتیجتاً ایک ایسی خود غرضانہ شخصیت وجود میں آتی ہے جو معاشی توازن کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے ، جس سے امیر امیر سے تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو جاتاہے۔
اشتراکیت:
اشتراکیت(Communism) اسلام کے متصادم ایک نظام ہے جو کہ سرمایہ داری کی ضد ہے ۔اشتراکیت کا نظریہ کارل مارکس (Karl Marx) مئی 1818ء تا 14مارچ ،1883ء)نے دیا جب کہ لینن اور سٹالن نے روس میں اسے نافذ کیا۔ اشتراکیت تاریخی مادیت اور جدلیت کا مجموعہ ہے۔کارل مارکس نے تاریخی اعتبار سے دنیا کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
1: اشتراکیت
2: جاگیرداری
3: غلامی
4: سرمایہ داری
5 : اشتراکیت
اشتراکیت محض ایک معاشی نظام ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ حیات کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ شخصی ملکیت کا خاتمہ اس نظام کی اوّلین ترجیح ہے ۔ تمام وسائل آمدن قوم کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہے ، ہر شخص قوم کی ترقی کے لیے محنت کرتا ہے اوراس کے اخراجات کے تناسب سے اسے معاوضہ دیا جاتا ہے ۔نتیجتا ہم دیکھتے ہیں کہ اشتراکی معاشرے میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں ناکارہ ہو جاتی ہیں ،ایک بے جان اور لاغر معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔
اسلامی معاشی نظام (Islamic Economy System)
اسلام سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک معتدل نظام معیشت ہے ۔اسلام شخص کے تمام شخصی اور فطری حقوق دینے کے ساتھ معاشرے میں دولت کا توازن بگڑنے نہیں دیتا ۔اسلام جہاں شخصی ملکیت کو تحفظ دیتا ہے وہی افراد پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کر دیاتا ہے جس سے معاشرے میں دولت کا توازن برقرار رہتا ہے ۔مثلا ایک اسلامی نظام میں کسی فرد کو فیکڑی ، مل یا کارخانہ لگانے کی اجازت ہے لیکن ساتھ ہی ذخیرہ اندوزی اور گردش دولت کو روکنے والے تمام ذرائع پر پابندی لگا دی۔گردش دولت کے اسی سسٹم کو جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَآ اَفَاءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةً بَيْنَ الْاَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ(الحشر:07)
”اللہ ان دیہات والوں سے جو (مال) بھی اپنے رسول کو مفت میں دلا دے وہ مال اللہ، رسول، قرابت والوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ (مال) تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔“
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کے پیش نظر نبی ﷺ نے فرمایا: مَنِ احْتَكَرَ فَهُوَ خَاطِئٌ، ”جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے.“ (صحیح مسلم:(1605)
اسلامی نظام معیشت میں بڑا اہم کردار اخلاقی تربیت کا ہے ۔اسلامی نظام معیشت میں ایک تاجر اور سرمایہ دار کے نفس کی اصلاح کرتے ہوئےخلوص، رحم دلی ، خیر خواہی اور خداترسی جیسی تعلیمات کی تلقین کی گئی ہے ۔مزید یہ کہ ان اوصاف سے متصف تاجر کے لیے اجر و ثواب کی خوشخبری سنائی ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ، وَالشُّهَدَاءِ ”سچا ،امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین، شہداء کے ساتھ ہوگا.“ (سنن الترمذی:1209)
اس کے علاوہ وہ تمام ذخیرہ احادیث جو اخلاقی تربیت پر مشتمل ہیں۔ اسی بحث کا تتمہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ اسلامی نظام معیشت افراط و تفریط سےکی بجائے فرد اور معاشرہ دونوں کو اہمیت دیتا ہے ۔اسلامی نظام معیشت خوشحال معاشرے کے ساتھ ترقی یافتہ افراد کو بھی پروان چڑھاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تبصرہ لکھیے