ہوم << بائیکاٹ کے ساتھ کچھ اور کرنے کے کام بھی - نصرت عزیز

بائیکاٹ کے ساتھ کچھ اور کرنے کے کام بھی - نصرت عزیز

اکتوبر 2023سے لے کرمارچ 2025 تک اکاون ہزار کے لگ بھگ فلسطینی مسلمان اسرائیلی ظلم و بربریت کا نشانہ بن کر شہید ہوچکے ہیں جن میں نومولود بچوں سے لے کر سوسالہ بزرگوں تک کی عمر کے لوگ شامل ہیں۔ فلسطین کی ہیلتھ منسٹری کے مطابق ان اکاون ہزار شہید ہونے والے فلسطینیوں میں سولہ ہزار کے قریب ایسے شہید ہیں جن کی عمریں 18سال سے کم ہیں جب کہ ان میں سے ایک ہزار کے قریب ایسے بچے شہید کیے گئے جن کی عمریں ایک سال سے بھی کم ہیں۔یہ صرف فلسطینیوں کی شہادتوں کے اعدا د شمار ہیں اس کے علاوہ رہائشی و کمرشل بلڈنگوں کی تباہی و بربادی کا اور ان کے ملبے تلے دبے فلسطینیوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 70فی صد پانی کی سپلائی بھی بند ہوچکی ہے اور اگر اشیائے خوردو نوش کی بات کریں تو صرف غزہ میں اکیس لاکھ لوگوں کو کھانے پینے کا سامان میسر نہیں ہے جب کہ زندگی بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہونے کی وجہ سے شہادتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یہ صرف ایک پیرا گراف میں لکھے گئے کچھ اعداد و شمار ہیں ورنہ فلسطین اور اہل فلسطین کے جو حالات وڈیوز، آڈیوز اور تصاویر کی صورت میں مختلف ذرائع سے جو موصول ہورہے ہیں وہ روح تک کو دہلا رہے ہیں، ظلم و بربریت کی ایسی داستانیں دیکھی اور سنی جارہی ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بے اختیار ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ اسرائیلیوں اور ان کے حمایتیوں کو گالم گلوچ اور بددعاؤں کے علاوہ ہم فلسطین کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ زیادہ غصہ آئے تو اسرائیلیوں اور ان کے حمایتیوں کو گالم گلوچ اور بددعائیں دیتے ہوئے ساتھ ساتھ مسلمان حکم رانوں کو بھی برا بھلا کہہ دیتے ہیں۔۔۔شاید اب ہمارے بس میں یہی کچھ رہ گیا ہے اور شاید کہ ہمارے بس میں سب کچھ اب یہی کچھ رہ گیا ہے۔

جہاں تک بات ہے اسرائیل مصنوعات کے بائیکاٹ کی تو ان مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کافی عرصہ سے مدہم سی چل رہی ہے مگر اب یہ مہم کافی زور و شور سے جاری ہے اور اس مہم کی وجہ سے ان مصنوعات کا بائیکاٹ اس خطہ برصغیر میں پریکٹیکلی بھی ہورہا ہے لیکن اگر مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر میں جتنی تعداد مسلمانوں کی ہے اس لحاظ سے یہ بائیکاٹ اتنا کامیاب نہیں ہے دوسرے الفاظ میں،مَیں کہوں گا کہ ان مصنوعات کی بائیکا ٹ مہم کو کامیاب کرنے میں بھی مسلمانوں کو باہمی اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے جو اس وقت بھی ناپید دکھائی دے رہا ہے لیکن ایک منٹ کے لیے بندہ جب ان مصنوعات کا تصور ذہن میں لاتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ گیم کتنے عرصہ سے جاری تھی اور کیسے ہمارے انگ انگ میں ان مصنوعات کو شامل کرکے اب ہمیں اتنا لاچار و بے بس کر دیا گیا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان مصنوعات سے چھٹکارا پانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

اس کے علاوہ میں یہاں یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ لکھوں گا کہ ہم میں سے بیشتر لوگ ان مصنوعات کے بائیکاٹ کو صرف اپنے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں اور پریکٹیکلی ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے وہ اقدام نہ کرسکے جو ہمیں کرنے چاہیے۔ مجھے یاد ہے ابھی کچھ ماہ پہلے جب میں نے اپنے میل ملاپ کے لوگوں کو ایک پاکستانی سرف کا مشورہ دیاتو ان میں سے سبھی اس بات پر راضی تھے کہ اسرائیلی کمپنیوں کے سرف کا بائیکاٹ ہوناچاہیے اور لوکل اشیاء کے استعمال کو یقینی بنا کر ملکی معیشت کو مضبوط کرنا چاہیے مگر جب پریکٹیکلی یہ اقدام کرنے کی باری آئی تو بیشتر نے یہی کہا کہ گھر میں خواتین نہیں مان رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔اب یہاں بندہ کیا کہے اور کیا کرے کہ جب بائیکاٹ کو صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود رکھنا ہے اور امیدیہ رکھنی ہے کہ ہمارے علاوہ دوسرے بائیکاٹ کریں، تو پھر کیا بائیکاٹ اور کیا اس بائیکاٹ کے نتائج کا حصول۔۔۔

بہر حال ابھی پریکٹیکلی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کافی حد تک چل رہا ہے اور کوئی یہ سمجھے کہ اس ایک فردکے بائیکاٹ کرنے سے کیا ہوگا تو اس ایک فرد کو یہی سوچ لیناچاہیے کہ ان ایک کے بائیکاٹ کرنے سے بہت کچھ فائدہ مند ہوگا ہاں البتہ بائیکاٹ نہ کرنے سے نقصان ہوگا اور بہت زیادہ ہوگا آج نہیں تو کل یا پھر کبھی نہ کبھی۔

بائیکاٹ کوجو مذاق سمجھ رہے یا پھر یہ ایک غیر مناسب طریقہ سمجھ رہے ہیں تو ان کو غزوہئ بدر کے اسباب اور وجوہات لازمی پڑھ لینی چاہیے کہ کیسے کفار مکہ جب مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو انھوں نے معاشی طاقت کو بڑھانے کے لیے خوب مال و اسباب سے مزین تجارتی قافلہ بھیج کر یہ تہیہ کیا کہ تجارت سے ہونے والے فائدہ سے معیشت کو مضبوط کرکے مسلمانوں کا ایک ہی بار میں خاتمہ کرتے ہیں، خیر ان کو اس مقصد میں کیسی منہ کی کھانی پڑی وہ ایک تاریخ ہے اور سنہری تاریخ، مگر یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ روز اول سے ہی کفار نے ہمیشہ دنیاوی مال و متاع پر غرور و تکبر کیا اور جب غرور و تکبر حد سے بڑھ جائے تو غرور و تکبر کرنے والے کو اپنا آپ ہمیشہ اعلیٰ اور دوسرے سبھی کم تر دکھائی دیتے ہیں اور جب یہ کفار مال و متاع میں حد درجہ اضافہ کرلیتے ہیں تو ان کا غرور و تکبر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ یہ مسلمانوں کو ایذا اور تکلیف پہنچائیں جس کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی کے علاوہ کچھ نہیں،چاہے وہ نسل کشی جنگی ہو، معاشرتی ہو، اخلاقی ہو یا پھر سائنسی ہو۔

لیکن اس کے ساتھ ایک اور نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ بائیکاٹ اگر کرنا ہے تو مستقل نوعیت کاکیا جائے یہ جذباتی یا لہری بائیکاٹ نہ تواُن کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور نہ ہماری بقاء کے لیے فائدہ مندہے بلکہ یہ جذباتی یا لہری بائیکاٹ اُن کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ جیسے کچھ عرصہ قبل فرانس میں جب توہین آمیز خاکے شایع کیے گئے تو پورے ملک میں فرانس کی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم چلی، دکان داروں سے لے کر کسٹمرز تک نے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا مگر پھر کیا ہوا؟وہی دکانیں، وہی کسٹمرز اور وہی فرانس کی مصنوعات کی ڈیمانڈاور ڈیمانڈ بھی پہلے سے زیادہ،تو پھر اُس بائیکاٹ کا فائدہ کس کو ہوا؟۔۔۔ ابھی کبھی بازار ایک کاسمیٹکس کی دکان پر جاکر چیک کریں فرانس کی مصنوعات وافر مقدار میں ملے گی اور سونے پہ سہاگہ کہ وہ دکان دار جو کچھ عرصہ قبل فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم میں جذباتی ڈائیلاگز کا انبار لگائے ہوئے تھے آج وہی دکان دار فرانس کی مصنوعات کی تعریفوں کے پل باندھ کر ان کو فروخت کررہے ہیں۔ اس لیے جب بائیکاٹ کرنا ہے اور اسلامی غیرت و حمیت جاگ گئی ہے تو اس بائیکاٹ کو مستقل نوعیت میں جاری رکھیں یہ جذباتی اور وقتی بائیکاٹ نہ فائدہ مند ہے او ر نہ اس کے دورس نتائج ہیں۔

فلسطین اور اہل فلسطین کی جو اطلاعات کسی بھی ذریعہ سے موصول ہورہی ہیں ان کو دیکھ کر سن کر حقیقت یہی ہے کہ دل اداس ہوئے پڑے ہیں پوری دنیا خاص کر امت مسلمہ میں ایک ماتم سا سماں ہے جو نہ بیتا جارہا ہے اور نہ ختم ہورہا ہے رک بھی جائے تو زخم ایسا ہے کہ یہ مندمل ہوتے ہوتے سانسوں کا تانہ بانہ ختم ہوجائے گامگر یہ زخم پھربھی مندمل نہیں ہوں گے۔تو سوال یہ ہے کہ اس ماتم اور سوگ کے سماں میں ہم بہ حیثیت مسلمان اور جسد واحداپنے اوپر اور اپنے معاملات میں کتنا سوگ اور ماتم کا رویہ اختیار کیے ہوئے اپنے تکلیف و درد میں مبتلا مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کررہے ہیں؟ کیا ہم نے اپنی شادیوں اور دوسری خوشی کی تقریبات کو سادہ کیا ہے یا ایسا کیا ہے کہ جس سے اندازہ ہوکہ ہم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے دکھ درد میں جسد واحد کی طرح شامل ہیں؟ میلوں ٹھیلوں اور عیاشیوں کواس سوگ اور ماتم کے سماں میں ختم کیا ہے یا نہیں؟ محلہ میں اگر ایک گھر میں فوتگی ہوجائے اور ساتھ والے گھر میں شادی ہوتو وہ شادی والے اپنے فنکشنز کومؤخر کرکے فوتگی والوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے اور اگر شریک نہ ہو تو یہ کسی طور پر مناسب عمل نہیں سمجھا جاتا ہے۔۔۔اسی طرح کہیں مسلمان ظلم و بربریت کی چکی میں پِس رہے ہوں جہاں مسلمانوں کے بچوں سے لے کر سو سالہ بزرگوں تک کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہو اور دوسرے مسلمان اس ظلم و بربریت کو سمجھتے بوجھتے ہوئے اپنے معمولات زندگی میں دکھ و سوگ کا سماں نہ باندھ سکیں بلکہ اپنی عیاشیوں اور اپنی فضولیات کو بے حسوں کی طرح جاری رکھیں تو پھر یہ ایسے ہی نامناسب عمل ہے جیسے کہ فوتگی والے گھر کے سوگ کو سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے گھر میں لگی شادی کو خوب دھوم دھام سے کرنا۔

عرض یہ ہے کہ بائیکاٹ بھی کریں لیکن مستقبل نوعیت کا بائیکاٹ کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اپنے معمولات زندگی کو اس سوگ اور دکھ درد کے سماں میں سمائیں تاکہ پوری امت مسلمہ اس حدیث مبارک کا جیتا جاگتا نمونہ دکھائی دے: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے۔(صحیح مسلم)