ہوم << پہلا قدم مفاہمت کی جانب؟ - چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

پہلا قدم مفاہمت کی جانب؟ - چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

پاکستان کی سیاست میں بے یقینی اور کشیدگی اس حد کو چھو چکی ہے جہاں اب ہر خبر، ہر ملاقات، اور ہر اشارہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سینیٹر اعظم سواتی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کی دو روز قبل اڈیالہ جیل میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے، اور اس ملاقات میں عمران خان نے انہیں ہدایت دی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا شروع کریں۔

بظاہر یہ ایک سادہ سا بیان ہے، مگر اس کے مضمرات بہت گہرے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک سیاسی محاذ آرائی، عدالتی پیچیدگیوں، معاشی بحران اور عوامی اضطراب کی مثلث میں پھنسا ہوا ہے، بات چیت کی بات کرنا ایک امید کی کرن ہے۔ یہ وہ پہلا قدم ہو سکتا ہے جو ایک طویل سرد جنگ کو گرمجوش مکالمے میں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے بشرطیکہ نیتوں میں اخلاص اور سمت میں سنجیدگی ہو۔ عمران خان، جن پر اس وقت درجنوں مقدمات چل رہے ہیں اور جنہیں سیاسی نظام سے باہر رکھنے کی مکمل کوشش ہو چکی ہے، اگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے اپنے قریبی ساتھی کو آگے بھیج رہے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات جتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں، راستہ صرف مفاہمت سے نکلے گا، محاذ آرائی سے نہیں۔

اس بات سے انکار نہیں کہ ماضی میں سیاسی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر اعتراض کرتی رہی ہیں، اور عمران خان خود اس بیانیے کے سب سے مؤثر ترجمان بنے۔ لیکن جب وہی شخصیت، قید کی تنہائی اور مشکلات کے باوجود، بات چیت کی ضرورت محسوس کرے، تو یہ ہمارے سیاسی و عسکری اداروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ شاید اب واقعی وقت آ چکا ہے کہ ایک میز پر بیٹھا جائے۔ بات چیت کوئی کمزوری نہیں، بلکہ جمہوری معاشروں کی اصل طاقت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذاکرات کو اکثر "ڈیل" یا "سمجھوتہ" کے منفی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، حالانکہ یہی عمل قوموں کو بحرانوں سے نکالتا ہے۔

عوام تھک چکے ہیں، مایوس ہو چکے ہیں، اور اب ان کے لیے یہ کشمکش ایک نفسیاتی اذیت بن چکی ہے۔ عام آدمی کو نہ سیاسی مقدمات سے دلچسپی ہے، نہ طاقت کے مراکز کی چالوں سے — اسے صرف روزگار، انصاف، اور مستقبل چاہیے۔ لہٰذا اگر اعظم سواتی کی بات درست ہے، اور اگر واقعی عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی سنجیدہ خواہش کا اظہار کیا ہے، تو اسے موقع سمجھ کر آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ یہ وہ موقع ہے جسے ضائع کرنا ایک قومی نقصان ہو گا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، حکومت، اپوزیشن — سب کو خود سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر قوم کے لیے دو قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

سوال یہ نہیں کہ پہلے کس نے کیا کہا تھا، سوال یہ ہے کہ اب ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ملک ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے۔ اگر کوئی دروازہ کھلنے جا رہا ہے تو اسے کھولنے میں تاخیر کیوں؟ یہ دروازہ شاید ہمیں جمہوریت، استحکام، اور قومی مفاہمت کی طرف لے جائے۔ اور شاید یہی وہ پہلا قدم ہو، جس کا ہمیں برسوں سے انتظار تھا۔

Comments

Avatar photo

چوہدری عامر عباس

چوہدری عامر عباس وکیل، صحافی، کالم نویس اور مصنف ہیں۔ گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور سے صحافت اور سیاسیات میں گریجویشن کرتے ہی شام کے اوقات میں ایک بڑی ملکی اخبار میں بطور سب ایڈیٹر جوائن کیا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کیا ہے، صحافت میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی جبکہ وکالت کےساتھ صحافتی سفر بھی جاری رہا۔ مختلف اخبارات میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر "قلم کٹہرا" کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ "قلم کٹہرا" نامی کتاب شائع ہو چکی ہے

Click here to post a comment