بگل بج چکا اور ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی نے دنیا الٹ دی ہے۔ ایک دو دن میں ہی اس قدر مالی نقصان ہو چکا ہے جو طویل جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے ہے کہ مالیاتی نظام کے نقصانات حقیقی معیشت (reali economy) پر کس حد تک اثرانداز ہوں گے۔ دنیا بھر کے اہل دانش یہ سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر اتنا نقصان کرنے سے امریکہ کو حاصل کیا ہو گا کیونکہ ماہرین کے بقول یہ ٹیرف پالیسی خود امریکہ اور اس کے عالمی غلبے کے لیے بھی بہت مہلک ہو گی۔ اس پالیسی کی تہہ میں جو فکر کام کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا امریکہ کی ہے اور اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کوئی ترقی کر سکتا ہے اور نہ کوئی عسکری قوت حاصل کر سکتا ہے، اور عالمی معاشی اور عسکری نظام اس وقت تک مفید اور بامعنی ہے جب تک یہ امریکی اور مغربی غلبے کا ذریعہ ہو۔ کسی دوسرے ملک کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اس عالمی نظام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکے۔ ٹرمپ نے نہایت چالاکی سے یوکرائن جنگ کو اپنے یورپی حلیفوں کے سپرد کر دیا ہے، تاکہ وہ خود کمیونسٹ چین سے نمٹ سکے۔ یاد رہے کہ یورپی ممالک نے اپنے وسائل سے آٹھ سو ارب یورو کا ایک فنڈ قائم کیا ہے تاکہ یوکرائن کی جنگ جو جاری رکھا جا سکے۔ ٹیرف پر بھارتی رد عمل سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ مودی جی کے حالیہ امریکی دورے کا اصل مقصد امریکہ کو کمیونسٹ چین کے خلاف جنگ میں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرانا تھا۔ نیتن یاہو کے دو امریکی دوروں کا مقصد بھی بالکل واضح ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کیا ہونے والا ہے۔ مسلم دنیا کے مکمل تہذیبی افلاس اور جانکنی کی عملی تصویر کے مشاہدے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
اس ٹیرف پالیسی کا اصل ہدف کمیونسٹ چین ہے۔ کمیونسٹ چین کے پیدا کردہ حقیقی خطرات میں اپنی عالمی بالا دستی کو برقرار رکھنے کے لیے اس وقت امریکہ کے سامنے صرف دو آپشن تھے: ایک یہ کہ چین پر براہ راست حملہ کیا جائے اور دوم یہ کہ ٹیرف جنگ کا آغاز کر دیا جائے۔ امریکہ نے فی الوقت کم تباہ کن آپشن کا انتخاب کیا ہے اور اس کے ناکام ہونے کی صورت میں دوسری آپشن استعمال ہو گی جو براہ راست جنگ کی ہے۔ دوسری آپشن میں اولاً مشرق وسطیٰ پر براہ راست اور مکمل امریکی قبضے اور تنگنائے ملاکا کی بندش کے ذریعے چین کو معاشی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ چین کی ترقی اور طاقت ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور امریکہ اب مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ امریکی ٹیرف پالیسی سے ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا ہے جو ناگزیر طور پر اور بتدریج ایک بڑی عالمی جنگ میں بدل جائے گی۔ ٹیرف پالیسی کا ایک استعماری اور تاریخی پس منظر ہے جس کو جانے بغیر موجودہ حالات کی سنگینی کو بالکل بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔
جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے ساتھ ہی فاشزم اور لبرلزم کی یورپی خانہ جنگی سرمایہ داری اور کمیونزم کی جنگ بن کر عالمگیر ہو گئی۔ ایک طرف امریکی قیادت میں سرمایہ داری نظام کی دنیا تھی اور دوسری طرف کمیونزم کے تحت سوویت روس اور کمیونسٹ چین کا اتحاد تھا جس کے خلاف امریکہ برسرپیکار تھا۔ جنگ عظیم کے فوراً بعد امریکی خارجہ اور جنگی پالیسی کا عنوان containment تھا۔ اس جارحانہ پالیسی کا مقصد سوویت روس اور کمیونسٹ چین کی معاشی ترقی، عسکری قوت اور سیاسی اثر و رسوخ پر روک لگانا تھا۔ اس پالیسی کا اہم ترین ستون سوویت روس اور کمیونسٹ چین کو مغرب کے طویل عالمی استعمار کے تحت وجود میں آنے والے بین الاقوامی معاشی نظام سے باہر رکھنا تھا جس میں امریکہ اور مغربی یورپ کو زبردست کامیابی ہوئی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد، مشرق بعید، مشرق وسطی، افریقہ اور باقی دنیا میں جو جنگیں ہوئیں، جو انقلابات آئے اور جتنی حکومتیں تبدیل ہوئیں ان کا واحد مقصد سوویت روس اور کمیونسٹ چین کے اتحاد کی معاشی ترقی اور سیاسی اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔ اس طرح جنگ عظیم دوم کے بعد جو دنیا وجود میں آئی اس میں صرف دو عالمی تنبو تھے۔ بڑا تنبو امریکہ کی زیر قیادت سرمایہ داری معاشی نظام کا تھا جبکہ دوسرا تنبو کمیونزم کے تحت وجود میں آیا تھا۔ ماقبل جنگ عظیم اول کی استعماری دنیا کے خانہ زاد مغربی تنبو کے بالمقابل ایک دوسرے تنبو کا وجود میں آ جانا ہی سرمائے اور طاقت کے عالمگیر نظام میں ایک بہت ہی بڑی پیشرفت تھی۔ امریکہ اور مغربی یورپ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کا تنبو حریت انسانی کی بنیاد پر بننے والی جنت ہے اور دوسرا تنبو دوزخ ہے، حالانکہ یہ استعمار ہی کا تسلسل تھا۔ اس زمانے میں فری ورلڈ کے جملہ معاشی اور سیاسی حقوق امریکہ کے نام تھے۔ کمیونسٹ دنیا امریکی بالادستی میں کوئی بڑا شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کشمکش کا نقطۂ عروج کیوبائی میزائیل بحران تھا جس میں روس کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا اور آگے چل کر اسی بحران کے عواقب اشتراکی دنیا کی تقسیم اور سوویت روس کے زوال کا باعث بنے۔
کیوبا کے میزائیل بحران کا فوری نتیجہ سوویت روس اور کمیونسٹ چین کا مقاطعہ تھا۔ اس طرح کمیونسٹ دنیا دو حصوں میں بٹ گئی۔ چونکہ سوویت روس امریکہ کا دشمن نمبر ایک تھا اس لیے امریکہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی containment policy میں بڑی تبدیلی کی اور اسے صرف سوویت روس اور اس کے اتحادیوں تک محدود کر دیا جبکہ کمیونسٹ چین کے لیے ایک نئی پالیسی بنائی جسے engagement of China کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سنہ ۱۹۷۲ء میں امریکی صدر نکسن نے کمیونسٹ چین کا دورہ کیا اور اس پالیسی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے مثلاً ون چائنا پالیسی، اقوام متحدہ میں چین کی شمولیت وغیرہ۔ لیکن اس سے ایک ایسی بڑی تبدیلی آئی جو ٹرمپ کی موجودہ ٹیرف پالیسی کی بنیاد ہے اور یہی بات سمجھنے والی ہے۔
کمیونسٹ چین کو engage کرنے کے امریکی فیصلے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ کمیونسٹ چین کو امریکہ کی نگرانی میں کام کرنے والے بین الاقوامی معاشی اور سیاسی تنبو میں داخل ہونے اور اس کے اصول و ضوابط کے مطابق بتدریج کام کرنے کی اجازت حاصل ہو گئی۔ فوری طور پر کمیونسٹ چین کو اس تنبو میں آنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا کیونکہ کمیونسٹ چین کا معاشی پیداواری عمل فرسودہ مارکسسٹ خیالات کے تحت کام کرتا تھا۔ کمیونسٹ چین کی بین الاقوامی کشادگی کے فوائد اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب دینگ زیاؤ پنگ نے سنہ ۱۹۷۹ء میں چین کے معاشی پیداواری عمل کو سرمایہ داری منہج پر منتقل کیا اور سیاسی منہج کو مارکسسٹ تصورات پر کمیونسٹ پارٹی کی صورت میں باقی رکھا۔ طویل مذاکرات کے بعد کمیونسٹ چین سنہ ۲۰۰۱ء میں ڈبلیو ٹی او کا ممبر بھی بن گیا اور اور اس طرح دینگ زیاؤ پنگ کی پالیسی کے تحت تیز رفتار صنعتی بڑھوتری اور بین الاقوامی تجارت نے موجودہ چین کی ترقی کے راستے کھول دیے۔ بہترین سیاسی انتظام اور سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سے وہ کرشمہ رونما ہوا جو دنیا اس وقت ترقی یافتہ چین کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔
سوویت روس اس ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکا تھا جسے کمیونسٹ چین نے ایک حقیقت بنا کر دکھا دیا، اور یہی امر امریکہ کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ امریکہ نے containment پالیسی کے احیا اور تجارتی پابندیوں کے ذریعے کمیونسٹ چین کے راستے میں روڑے اٹکانے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہاں بنیادی بات کو پھر سے دہرانے کی ضرورت ہے کہ کمیونسٹ چین کی ترقی میں سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کی پیروی اور بین الاقوامی تجارتی اور معاشی نظام میں شمولیت نے ہی بنیادی کردار ادا کیا ہے، عین وہی عالمی معاشی نظام جس پر امریکہ ایک فیصلہ کن غلبہ رکھتا ہے۔ تجارتی پابندیوں کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ چین کا راستہ روک سکے لیکن وہ ناکافی ثابت ہو رہی تھیں۔ اس لیے موجودہ ٹیرف پالیسی اپنائی گئی ہے جو اصلاً کھلم کھلا ایک ایسی جنگ کا آغاز ہے جو اسلحے کی جنگ میں تبدیل ہونے کا حقیقی امکان رکھتی ہے۔
کمیونسٹ چین نے سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کے ذریعے صرف چار دہائیوں میں وہ کچھ حاصل کر لیا جو امریکہ اور مغربی یورپ نے تین سو سال میں حاصل کیا تھا۔ کمیونسٹ چین کی ترقی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ وہ چند ہی سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ عین وہی عالمی معاشی نظام جس میں شمولیت کمیونسٹ چین کی معاشی قوت کا اصل سرچشمہ ہے، اگر اسے منہدم کر دیا جائے تو کمیونسٹ چین بھی ازخود ختم ہو جائے گا۔ بالکل صاف نظر آ رہا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا مقصد پورے عالمی معاشی نظام کو منہدم کرنا ہے تاکہ چین کا راستہ روکا جا سکے۔ یعنی وہ معاشی میدان جس میں کھیل کر کمیونسٹ چین ایک عالمی معاشی قوت بن گیا ہے اگر اسے ہی ختم کر دیا جائے تو چین کی ہار جیت کی کہانی بھی ختم ہو جائے گی۔ امریکی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ اس طرح کمیونسٹ چین کی شکست کے بعد وہ ایک عالمی معاشی نظام پھر سے کھڑا کر سکتے ہیں جس سے کمیونسٹ چین آغاز ہی سے خارج ہو اور اسے مکمل طور نکال باہر کر دیا گیا ہو۔
ٹرمپ نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے اس کا پہلا مرحلہ پرانے عالمی معاشی نظام کا خاتمہ ہے، اور جو اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ڈھیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ دوسرا مرحلہ توانائی کے وسائل اور آبی گزرگاہوں پر مکمل امریکی قبضہ اور کمیونسٹ چین کی وہاں سے بے دخلی ہے۔ اس تناظر میں مشرق وسطیٰ کے توانائی کے ذخائر پر قبضے کے لیے اس کی مکمل ترتیب نو لازم ہے جسے مشرق وسطیٰ پر اسر.ا.ئیلی تسلط کی توسیع سے ممکن بنایا جائے گا، اور جس کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ ٹیرف جنگ شروع ہوتے ہی حالات و واقعات بہت سرعت کے ساتھ پیشرفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس جنگ میں پہلگامی (initiative) امریکہ کے پاس ہے اور کمیونسٹ چین کی قیادت صرف رد عمل دے سکتی ہے۔ کمیونسٹ چین اقدامی پالیسی اختیار نہیں کر سکتا یا نہیں کر رہا۔ امریکہ کے خلاف ایک بڑی جوابی کاروائی یہ ہو سکتی ہے کہ کمیونسٹ چین rights and patents ماننے سے انکار کر دے، اور اس سے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اسلحاتی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بین الاقوامی اداروں پر امریکہ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ انھیں بہت مؤثر انداز میں کمیونسٹ چین کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ دنیا پر امریکی قبضہ اور گرفت ایک واقعاتی حقیقت ہے جس کے سامنے کمیونسٹ چین ایک کمزور ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ تہذیبی، عسکری اور ٹیکنالوجیائی وسائل جو یہ جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہیں امریکہ کے پاس کہیں زیادہ ہیں۔ پانچویں یہ کہ اقوام عالم کی اکثریت کچھ خاص تاریخی حالات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔کمیونسٹ چین کو روس، برازیل، جنوبی افریقہ، پاکستان اور آسیان وغیرہ کی حمایت حاصل ہو گی۔ بساط شطرنج پر امریکی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کمیونسٹ چین کو وینزویلا بنانے میں کامیاب ہو گا یا نہیں؟ مجھے ذاتی طور پر اس امر کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کمیونسٹ چین کو مکمل زیر کرنے میں کامیاب ہو گا لیکن وہ کمیونسٹ چین کی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کمیونسٹ چین اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ ٹیرف اعلان کے بعد دنیا بھر کے اکثر اہم ممالک پس پردہ ناک رگڑ کر اور بوٹ چاٹ کر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ اپنے اتحادیوں کو ذلیل کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ اتحادیوں کو ان کی اوقات یاد کرانے کے بعد پھر سے اپنے سائے میں لے لے گا۔ جس وقت تک کمیونسٹ چین کے ساتھ جنگ میں شدت آئے گی اس وقت چین کے ساتھ صرف ایک ملک ہی رہ جائیں اور باقی سب ٹرمپ کو پیارے ہو چکے ہوں گے۔ امریکہ چین کی جنگ کا انجام جو بھی ہو، اس کے لیے ٹرمپ دنیا کی لازمی تشکیل نو کرے گا۔ ٹرمپ کے جنگی مقاصد کے حصول کے لیے مسلم دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی تدمیر ایک حقیقی امکان ہے بلکہ اس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
دم چھلا: یہ مضمون پوسٹ کرنے سے کچھ دیر پہلے میں ایم ایس این بی ایس کی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں امریکی صدر ٹرمپ اپنی ٹیرف پالیسی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ دنیا بھر کے لیڈر جہازوں میں بھر کر، سر سر کرتے ہوئے پہنچ رہے ہیں اور ”میری گاف چاٹ رہے ہیں، kissing my ass“۔ یہ ہے نئی دنیا کا منظر نامہ۔
تبصرہ لکھیے