ہوم << فلسطین کی پکار، امت مسلمہ کے ضمیر کی آزمائش - بنت شریف

فلسطین کی پکار، امت مسلمہ کے ضمیر کی آزمائش - بنت شریف

فلسطین، وہ سرزمین جہاں انبیاء نے قدم رکھے، جہاں اذانوں کی گونج نے فضاؤں کو جگایا، جہاں آسمانوں نے آسمانی وحی کے نزول کا منظر دیکھا، اور جہاں آج بھی معصوم بچوں کی آنکھوں میں امید کے چراغ جلتے ہیں. خواب آزادی کے، امن کے، اور ایک پرسکون کل کے۔

یہ زمین صرف ایک قوم یا ایک نسل کی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے دل کا ٹکڑا ہے۔ یہاں بہنے والا ہر قطرۂ خون، ہر چیخ، ہر آنسو ہم سب سے سوال کرتا ہے: "کیا تم جاگ رہے ہو؟ کیا تمہیں میری پکار سنائی دے رہی ہے؟" فلسطین کی کہانی کوئی نئی نہیں، بلکہ یہ صدیوں پر محیط ظلم و جبر کی ایک طویل داستان ہے۔ ہر دن ایک نئی صبح نہیں بلکہ ایک نیا زخم لے کر آتا ہے۔ ظلم و ستم کی ایسی اندھیری رات ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ مسجد اقصیٰ کے مینار آج بھی گواہ ہیں کہ کیسے معصوم نمازیوں پر آنسو گیس، گولیوں اور ظلم کی بارش کی گئی۔ کیسے ماؤں کی گودیں اجڑیں، کیسے معصوم بچے یتیم ہوئے، اور کیسے باپوں کے کندھوں پر اپنے جگر گوشوں کے جنازے رکھے گئے۔

دشمن جدید ٹیکنالوجی، میزائلوں اور اسلحے سے لیس ہے، جبکہ فلسطینی قوم صبر، ایمان، غیرت اور قربانی کے ہتھیار سے سرشار ہے۔ وہ نہتے ہو کر بھی جابر قوتوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پتھر ہے، مگر ان کا حوصلہ فولاد سے مضبوط ہے۔ ان کی مائیں شہادت کے تمغے سجا کر بیٹوں کو رخصت کرتی ہیں، اور ان کے بچے قید و بند کی صعوبتیں سہہ کر بھی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوتے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ دنیا خاموش ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی عدالتیں، سب صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ فلسطین جل رہا ہے، اور دنیا اپنے مفادات کی چادر اوڑھ کر سو رہی ہے۔

کہیں تیل کی سیاست ہے، کہیں تجارتی معاہدوں کا دباؤ۔ کیا کسی معصوم کی لاش پر بھی کوئی قرارداد لاگو ہوتی ہے؟ کیا کسی مظلوم کی چیخ بھی اقوام عالم کے کانوں تک پہنچتی ہے؟ یا پھر مسلمان ہونا ہی جرم بن گیا ہے؟ ایسے میں ہم، امت مسلمہ، کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہمارے دل اتنے سخت ہو چکے ہیں کہ معصوم بچوں کی چیخیں بھی ہمیں بیدار نہیں کر سکتیں؟ کیا ہم اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ فلسطین کی آہیں ہمارے وقت میں جگہ نہیں پا سکتیں؟ کیا ہم بھول چکے ہیں کہ یہ وہی سرزمین ہے جہاں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات قدم رکھا؟ جہاں قبلہ اول واقع ہے، جو ہماری تاریخ، تہذیب اور ایمان کا حصہ ہے؟ فلسطین کی حمایت محض وقتی جذبہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مومن ایک جسم کی مانند ہے، جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔"

اگر ہم واقعی مومن ہیں، تو فلسطین کا درد ہمارا درد ہے، ان کی تکلیف ہماری تکلیف ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کی حمایت صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے یا وقتی جذبات ظاہر کرنے سے مکمل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے عملی اقدامات، بیداری، مالی تعاون، دعائیں، اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں، درسگاہوں، مساجد اور منبروں سے آواز بلند کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی نسلوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ فلسطین کوئی اجنبی سرزمین نہیں، بلکہ ہماری دینی و روحانی شناخت ہے۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں فلسطین کو یاد رکھنا ہوگا۔ اللہ رب العزت ہر چیز پر قادر ہے۔ جب مظلوم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے، تو ظالم کی سلطنتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔

ہمیں اللہ سے فریاد کرنی ہے کہ وہ اہل فلسطین کی مدد فرمائے، ان کے شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے، زخمیوں کو شفا دے، اور ان کے دشمنوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرے۔ آج وقت ہے بیداری کا، عمل کا، اور اتحاد کا۔ اگر ہم نے آج فلسطین کے حق میں آواز نہ اٹھائی، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہم اپنے بچوں کو کیا جواب دیں گے جب وہ پوچھیں گے:

"جب فلسطین جل رہا تھا، تب آپ کہاں تھے؟"

خاموشی اب گناہ ہے، اور بولنا فرض۔ ہمیں اپنے قلم کو جہاد کا ذریعہ بنانا ہوگا، اپنی زبانوں کو حق کی آواز بنانا ہوگا، اور اپنے وسائل کو اہل فلسطین کی حمایت میں صرف کرنا ہوگا۔ دنیا کی خاموشی ہمیں خاموش نہ کرے، بلکہ ہمیں للکارے کہ ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔

فلسطین، تم تنہا نہیں ہو۔
تمہاری آہیں ہمارے دلوں میں گونجتی ہیں،
تمہارے زخم ہماری روح پر نقش ہیں،
تمہارے شہداء ہمارے ایمان کا حصہ ہیں،
اور تمہاری فتح ہمارا یقین ہے۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین