ہوم << 9 مئی تاریخ کا سیاہ باب اور قیادت کی آزمائش - سلمان احمد قریشی

9 مئی تاریخ کا سیاہ باب اور قیادت کی آزمائش - سلمان احمد قریشی

تاریخ قوموں کی زندگی میں آئینہ ہوتی ہے، جو ماضی کی جھلک دکھا کر حال میں رہنمائی اور مستقبل کی سمت طے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو صرف حادثات نہیں بلکہ آزمائش ہوتے ہیں۔ قوم، ریاست اور قیادت، سب کے لیے۔ 9 مئی 2023 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک افسوسناک اور غیر معمولی سانحہ بن کر سامنے آیا، جس کی نوعیت اور شدت نے نہ صرف ریاستی اداروں کو جھنجھوڑا بلکہ قومی وحدت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔

پنجاب حکومت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، سانحہ 9 مئی کے دوران پنجاب بھر کے 38 اضلاع میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پیش آئے، جن سے مجموعی طور پر 19 کروڑ 70 لاکھ روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ لاہور میں سب سے زیادہ 11 کروڑ روپے، راولپنڈی میں 2 کروڑ 60 لاکھ، اور میانوالی میں 5 کروڑ روپے کے نقصان کی تفصیل رپورٹ میں شامل ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں 319 مقدمات درج ہوئے اور 35 ہزار سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا، جن میں سے 24 ہزار سے زائد تاحال مفرور ہیں۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سیاست میں گرفتاریاں، جلاوطنی، پھانسیاں اور نااہلیاں کوئی نئی بات نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، قوم نے غم و غصہ ضرور محسوس کیا، لیکن اس کا اظہار کبھی ریاستی اداروں پر حملوں کی صورت میں نہیں ہوا۔ خاص طور پر آصف علی زرداری کا ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے جذبات کے طوفان کے آگے بند باندھ دیا۔ یہی قیادت کا اصل کردار ہوتا ہے۔جذبات کو سمت دینا، انتقام کو تدبر میں بدلنا، اور احتجاج کو پُرامن رکھنا۔

9 مئی کے واقعات اس اعتبار سے منفرد اور افسوسناک ہیں کہ یہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ منظم حملوں کی شکل اختیار کر گئے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو کوئی عام ریلی یا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک ادارے پر حملہ تھا۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس جماعت کے کارکنان کی جانب سے کیا گیا جس کے بانی چیئرمین کو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ نہ کوئی مارشل لا لگا، نہ ہی آئین معطل ہوا، لیکن ردِ عمل نے ثابت کیا کہ شعور کے دعوے داروں نے بے شعوری کا عملی مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر بطور قوم ہمیں اس المیے کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ سیاست اپنی جگہ، اختلافات کا حق سب کو حاصل ہے، لیکن ریاستی اداروں پر حملے، قومی اثاثوں کی تباہی اور قانون کی دھجیاں کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالتیں کریں گی، لیکن قیادت کے اشتعال انگیز بیانات نے حالات کو جو رخ دیا، اسے نظر انداز کرنا بھی انصاف نہیں۔پی ٹی آئی قیادت نے گرفتاری کے ردِ عمل کو مشتعل بیانات اور ہجوم کو اداروں پر چڑھائی کی دعوت میں بدل دیا۔ پی ٹی آئی کی یہ روش صرف خطرناک نہیں بلکہ تاریخی حوالوں سے افسوسناک مماثلت بھی رکھتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں چھ نکات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان چھ نکات میں درحقیقت علیحدگی کی بنیادیں رکھی گئی تھیں، جن میں خودمختاری، کرنسی، ٹیکس اور فوج کے معاملات شامل تھے۔ اگرچہ ان نکات کو مغربی پاکستان میں شدت سے رد کیا گیا، لیکن عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ عدم سنجیدگی، بداعتمادی، اور سیاسی ضد نے بالآخر سقوطِ ڈھاکہ کو جنم دیا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ چند ہی ماہ قبل پی ٹی آئی کی قیادت شیخ مجیب الرحمٰن کو ”آئینی جدوجہد“ کا ہیرو اور ”اصولوں پر ڈٹ جانے والا لیڈر“ قرار دیتی رہی، جب کہ آج خود بنگلہ دیش کے عوام نے شیخ مجیب کی جماعت کو مسترد کر دیا۔ حالیہ انتخابات میں عوامی لیگ کو زبردست عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی رائے بدل چکی ہے، اور بنگلہ دیش کی نئی نسل اب مجیب الرحمٰن کے بیانیے کو فرسودہ سمجھتی ہے، تو پی ٹی آئی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیا اب بھی اسے مثالی جدوجہد کا استعارہ سمجھا جائے گا؟

9 مئی 2023 کا دن پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں ایک ایسا ہی نکتہ آغاز تھا، جس نے ہمیں ماضی کے زخموں کی یاد دلا دی، اور موجودہ قیادت کے رویے کو بے نقاب کر دیا۔اسی طرح، امریکی مداخلت کا بیانیہ بھی آخرکار کھوکھلا ثابت ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی، عسکری قیادت، اور پارلیمانی تحقیق سب نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا، مگر پی ٹی آئی نے اس نکتہ پر بھی معافی مانگنے یا اصلاح کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ سنجیدگی کا فقدان سیاسی بیانیے کو وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر تاریخ کے کٹہرے میں ہمیشہ خسارے کا سودا ہوتا ہے۔

اب وقت ہے کہ ہم جذبات سے بالاتر ہو کر عقل اور تدبر کو اپنائیں۔ قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور کارکنان کو یہ سکھانا ہوگا کہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ اس پر ہاتھ اٹھانے والے اپنی جڑیں کاٹتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یاد رکھے گی، سوال یہ ہے کہ ہم کیسے یاد رکھے جانا چاہتے ہیں؟اب جبکہ ملک ایک بار پھر معاشی استحکام کی طرف بڑھنے لگا ہے تو آئندہ انتخابات کے وقت بطور قوم اپنے ووٹ کو صرف نعروں، الزامات یا ماضی کے انتقام کی بنیاد پر نہ ڈالیں بلکہ سوچ، کردار اور ریاستی وفاداری کو مدنظر رکھیں۔ ہمیں ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی وحدت، آئین اور جمہوری اقدار کے علمبردار ہوں۔ اداروں کو بھی غیرجانبداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ انتخابات نہ صرف شفاف ہوں بلکہ ان پر عوام کا اعتماد بھی قائم ہو۔

جو قیادت اداروں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہو، اسے محض سیاسی مقبولیت کی بنیاد پر رعایت دینا مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ یہ وقت تاریخ سے سبق لینے کا ہے۔ خاکم بدہن، ڈھاکہ کے سانحے کو بھول جانا صرف سقوطِ اسلام آباد کا دروازہ کھولے گا۔9 مئی اگرچہ سیاسی جماعت کی پالیسی نہیں تھی، لیکن اشتعال انگیز بیانات اور سوشل میڈیا پر منفی مہم نے بہت سے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت پُرتشدد احتجاج کے الزامات کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان نے الذوالفقار نامی تنظیم سے تعلق کی بنیاد پر بہت کچھ برداشت کیا۔ اس وقت پی پی پی کی قیادت نے خود کو واضح طور پر اس تنظیم سے الگ رکھا اور جمہوری انداز میں سیاسی سفر جاری رکھا۔ الذوالفقار حقیقت تھی یا افسانہ،یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی نے جمہوریت اور جمہوری جدوجہد سے ہی اقتدار حاصل کیا۔ مینڈیٹ پر ڈاکہ، ظلم و ستم، ناانصافی سب کچھ دیکھا، لیکن پُرتشدد کارروائیوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔

9 مئی میں کون ملوث تھا؟ کیا یہ سوچی سمجھی سازش تھی یا انفرادی فعل؟ اس کی مذمت اور اس الزام سے چھٹکارا بہت ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے سے لے کر بانی کی گرفتاری تک ملکی سیاست میں کچھ نیا نہیں ہوا۔ 9 مئی کے پُرتشدد واقعات اور اس کے بعد بیانیے کی تشکیل ایک نئی سوچ اور غیرسیاسی عمل تھا، جس پر ریاست خاموش نہیں رہ سکتی۔اس لیے 9 مئی کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دینا، اور جمہوری عمل کو آئینی دائرے میں رکھنا ہی ہمارے قومی مستقبل کی ضمانت ہے۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment