ہوم << افغانوں کی رخصتی - علی ہلال

افغانوں کی رخصتی - علی ہلال

قول فیصل یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی بیدخلی کا معاملہ خالص ریاستی اور حکومتی معاملہ ہے۔ جس میں ہم عام عوام کی کوئی مرضی و منشا شامل نہیں ہے۔ پاکستان کا ماضی میں مسلمان مہاجرین کے حوالے سے ایک شاندار کردار رہاہے۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی جب 1962ء میں برما کی بدھسٹ فوجی حکومت نے نسل کشی شروع کی تو پاکستان ہی ان بے بس مہاجرین کے لیے اپنے دروازگ کھولنے والا ملک تھا۔

پاکستان نے ایران ،لبنان ، سوریا اور عراق تک کے پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے۔ سوویت یونین کے حملے کے وقت افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی۔ اور کوئی کچھ بھی کہے مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے قربانی دے کر کسی لالچ کے بغیر انہیں خالص اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت پناہ دی تھی۔ پاکستانیوں نے بھی افغان مہاجرین کو کھلے دل کے ساتھ ویلکم کیا۔ اور انہیں قبول کیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔ پرنٹ میڈیا اور ویڈیو خبر رسانی کے اکلوتے ذرائع تھے۔ غلط فہمیاں ،بدظنی اور شکوک وشبہات پھیلنے کاامکان بھی کم تھا۔ جس کے باعث افغان مہاجرین کے آنے کے ساتھ صرف ریاستی آواز اور اعلانیہ لوگوں کے کانوں تک پہنچتا رہا۔ سوویت فورسز کے افغانستان میں مظالم کی آوازیں بھی آتی رہیں جس کے باعث افغان مہاجرین کو لوگوں نے دل وجان کے ساتھ قبول کیا۔ دیکھا جائے تو مہاجرین کی اکثریت نے بھی اپنی محنت مزدوری کی۔ محنت کرکے کمایا اور خود کفیل ہونے کی کوشش کی۔ سکریپ سے کپڑے اور ٹرانسپورٹ سے ہوٹلنگ تک ہر کام میں افغان مہاجرین نے نمایاں جگہ بنائی۔ مجھے خود یاد ہے۔ بچپن میں ہمارے ڈیرے پر کپڑے بیچنے والے افغان مہاجرین آتے تھے تو وہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری دکھ بھری کہانیاں لاتے تھے۔ وہ قصے سناتے تھے ۔ لوگ ان پر ترس کھاتے تھے۔ اس دوران سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ پھر کئی سال گزرگئے۔ مہینے سالوں میں اور سال دہائیوں میں گزرگئے۔ عالمی سیاسی منظر نامے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کل تک افغانوں کو مجاہدین کہنے والے امریکہ نے تیور بدل دئے ۔ وہی حقانی تھے جو صدر ریگن کے ساتھ فوٹوز لیتے تھے وہ ایک دم بلیک لسٹ میں چلے گئے۔ افغانستان کے لیے دنیا کی نظریں بدل گئیں۔

ادھر پاکستان میں بھی وہ لوگ بڑی تیزی سے عہدوں ریٹائرڈ ہوگئے جو افغان مہاجرین کو لائے تھے۔ افغان مہاجرین کی نئی نسل میں بھی نئے احساس انگڑائی لینے لگے۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانوں کی تیسری نسل بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے لگی تھی۔ جن کے ہاتھ میں ٹچ موبائل آگئے تھے۔ وہ انٹرنیٹ اور سوشل تک رسائی حاصل کر کے تھے۔ نئی نسل میں پاکستان مخالف سوچ بھر گئی۔ کرکٹ کے بہانے کبھی پاکستانی پرچم کو آگ لگائی کبھی سوشل میڈیا پر گالم گالم گلوچ تک بات اگئی۔ پنجاب کا پاکستانی کالا پنجابی بن گیا۔ جبکہ خیبر کا پختون گل خان بنا۔ نئی نسل کے ان طعنوں نے تعلقات داؤ پر لگادیے۔مہمانوں کے بچوں نے بے احتیاطی کرکے میزبان کے دلوں میں اپنے لئے ہمدردی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور پھر جس طرح مہمانوں کی نئی پود یہ بھول بیٹھی تھی کہ گھر کرایہ کا ہے اسی طرح میزبان بھی آداب میزبانی بھولنے پر مجبور ہوگئے۔

غلطی کس کی ہے۔ غلطی وقت کی ہے۔ وقت اس قدر جلدی گزرگیا کہ وہ لٹے پٹے قافلے لانے والے میر کارواں مرگئے ہیں جبکہ انہیں جگہ دینے والے میزبان بھی اب منوں مٹی تلے ہیں۔ تب پاکستان کی ابادی پندرہ کروڑ تھی اور اب پچیس کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ پرسوں الاصف افغانی پلاؤ کھاکر کاؤنٹر پر بیٹھے فارسی بولنے والے افغانی جوان کے تاثرات سنتا رہا۔ بولا میری جوان ماں چالیس دن پیدل چل کر پاکستان آئی تھی ۔ تب وہ ماں نہیں تھی۔ انہوں نے پاکستان میں ہمیں جنم دیا ۔ ہم یہاں جوان ہوئے ۔ اب واپسی کی راہیں بھی معلوم نہیں۔ واپس جائیں گے تو کہاں جائیں گے۔

میرے ساتھ کراچی کے سینئر صحافی تھے۔ وہ بتارہے تھے کہ افغانستان میں بھی لسانی تعصب ہے۔ ہم واپس جائیں گے تو رل جائیں گے۔ پاکستان سے ایک لاکھ روپے لے جاتے ہیں تو بارڈر کے اس بار چوبیس ہزار ملتے ہیں۔ وہاں مہاجرین کی واپسی کے باعث زمین کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں ۔ چھوٹے سے مکان کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ ملک میں وامان تو ہے لیکن حالات اس قدر مستحکم نہیں ہیں جس پر بھروسہ کرکے کروڑوں کی جائیداد فروخت کردی جائے ۔ کہا ہم یہاں پلے پڑے ہیں ۔ یہی جوان ہوئے ۔اس ملک کو برا بھلا بھی کہیں گے لیکن دل یہاں سے جانے کو نہیں کرتا۔ پاکستانی عوام اچھے ہیں حکام بھی برے نہیں لیکن حالات برے ہیں۔

یہ ریاستوں کے فیصلے ہیں۔ افغان حکومت کو بھی ماضی کہ حکومتوں کی طرح چاہئیے تھا ۔ مذاکرات کرتے۔ افہام وتفہیم کے ساتھ معاملات نمٹاتے۔ تو معاملات اس قدر گھمبیر رخ اختیار نہ کرتے۔لیکن کراچی میں افغان قونصل جنرل کے ساتھ ایک ملاقات میں ان کے لب ولہجے سے میں سمجھ گیا تھا کہ نئی انتظامیہ کے کچھ لوگوں کے ساتھ عہدے ویسے ہی باندھ دیے گئے ہیں۔ ان میں اس کی اہلیت نہیں ہے۔ یہ حالیہ جتنا بڑا بحران کھڑا ہوگیا ہے اس کی ذمہ داری سے حالیہ افغان حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

میں اپنے پاکستانی دوستوں بالخصوص سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں سے درخواست کروں گا۔ جانے والے کو دکھ مت دو۔ برا وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔ اچھے میزبان ہونے کا تاثر دو۔ نہ یہ مہاجرین لانے والے تم تھے اور ناہی انہیں تمہارے کہنے پر نکالا جارہاہے۔ زمینی سرحدوں کی مجبوریوں کی خاطر داری کے لئے اخلاقی سرحدوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب مت کرو۔ ٹوٹے دلوں کو اپنے لفظوں کے تیر و نشتر سے گھائل مت کرو۔ کسی کا کاروباری پارٹنر جارہاہے۔کسی کا دلدار ودلربا جارہاہے۔ کسی کی مجلسیں اجڑرہی ہیں۔ یہ ہجرتیں اپنے اندر بڑی دکھی کہانیاں اور دل خراش داستانیں لئے رکھتی ہیں۔ افغان ہمارے معاشرے کا حصہ رہے ہیں ۔ ہماری یادیں ان سے وابستہ ہیں۔ پشتو کی تو شاعری ہی افغانوں کی وطن واپسی کے نوحوں سے بھری پڑی ہے۔ استاذ بیلتون ہو۔ نغمہ ہو۔ ان لوگوں نے ہمیشہ افغان مہاجرین کو وطن واپسی کے لئے جگائے رکھا ہے۔

شاعری موسیقی کی طرح ہمارے کام و دہن میں افغانوں کے کھانوں کے ذائقے رچے بسے ہیں۔ ان میں ہمارے اساتذہ بھی ہیں۔ شاگرد بھی ہیں اور ہم درس ساتھی بھی ہیں۔ یہ ایک دور تھا جو گزرگیا۔ اللہ کرے یہ اختلافات ختم ہوں۔ ناراضگیاں دور ہوں۔ سرحدوں پر امن اور نرمی ہو۔