غزہ وہ سرزمین جو آنکھ کھولتی ہے تو دھماکوں کی گونج سنتی ہے
رات آتی ہے تو لاشوں کی سیاہی اپنے سینے میں اتارتی ہے۔
جہاں مائیں بچوں کو پیدا نہیں کرتیں، قربان کرتی ہیں۔
جہاں بچے کھلونے نہیں، کفن چنتے ہیں۔
جہاں ہر آہ، ہر چیخ، ہر سسکی — آسمان تک جاتی ہے، مگر زمین پر کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔
ادھر ہم ہیں — امتِ محمد ﷺ —
ہمارے گھروں میں روشنی ہے، مگر دل تاریک۔
ہمارے دسترخوان بھرے ہوئے، مگر ضمیر خالی۔
ہمارے فون وائی فائی سے جُڑے ہیں، مگر ہم اللہ سے کٹے ہوئے۔
ہمیں وقت ملتا ہے ہر چیز کے لیے،
سوائے اس امت کے خون کے لیے رونے، تڑپنے، اور کچھ کرنے کے لیے۔
کیسا جمود ہے یہ؟
کیسی بےحسی ہے یہ؟
غزہ میں بچے جل رہے ہیں،
اور ہم چھوٹے چھوٹے اختلافات پر لڑ رہے ہیں۔
غزہ میں دعاؤں کی چیخ ہے،
اور ہم لطیفے اور میمز سے وقت گزار رہے ہیں۔
غزہ میں ہر گھر ماتم کدہ ہے،
اور ہمارے گھروں میں شادیاں، گانے، مہندی، روشنی، قہقہے۔
کیا ہم مردہ ہو چکے ہیں؟
یا صرف اتنے بےحس ہو چکے ہیں کہ درد کو بھی ایڈیٹ کر کے، فلٹر لگا کر، سکرول کر دیتے ہیں؟
ہم وہ امت ہیں جس کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔"
تو کیا ہم بھائی ہیں؟
نہیں۔
ہم تماشائی ہیں۔
کاش کوئی ہمارے سجے ہوئے گھروں میں، ہماری نرم بستروں میں، ہمارے دلوں میں ایک زلزلہ ڈال دے۔
کاش کوئی چیخ مار کر ہمیں جگا دے،
کاش کوئی ہمیں بتا دے کہ دنیا کی سب سے بدترین موت صرف جسم کی نہیں ہوتی —
ضمیر کے مرنے کی ہوتی ہے۔
اور ہم سب...
اس وقت…
ایک اجتماعی، اجتماعی، اجتماعی موت مر رہے ہیں۔
اٹھو امتِ مسلمہ،
اب وقت نہیں رہا۔
یا جاگ جاؤ، یا دفن ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
کیونکہ جو قوم اپنے شہیدوں پر روتی نہیں،
وہ بہت جلد خود تاریخ میں ایک لاش بن کر دفن ہو جاتی ہے۔
تبصرہ لکھیے