ہوم << حماس: حریت، استقامت و عزیمت کا روشن استعارہ - آصف رندھاوا

حماس: حریت، استقامت و عزیمت کا روشن استعارہ - آصف رندھاوا

حماس (حَرَكَة المُقَاوَمَة الإِسْلَامِيَّة) یعنی "اسلامی مزاحمتی تحریک"، فلسطین کے غیور عوام کی ایک ایسی نمائندہ تنظیم ہے جو نصف صدی سے زائد عرصے سے اپنے وطن کی آزادی، مسلمانوں کی حرمت، اور قبلۂ اول مسجد اقصیٰ کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ تنظیم اگرچہ 1987ء میں باضابطہ طور پر معرضِ وجود میں آئی، مگر اس کی جڑیں فلسطینی عوام کی اس طویل جدوجہد میں پیوست ہیں جو انہوں نے 1948ء میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کے خلاف شروع کی تھی۔

حماس کا قیام ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا جب فلسطینیوں کی حالت زار عالمی سیاست کے پیچ و خم میں دب چکی تھی۔ 1987ء کی پہلی انتفاضہ کے دوران، اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے چند مخلص علماء اور کارکنوں نے محسوس کیا کہ مزاحمت کا اسلامی پہلو زیادہ فعال اور منظم شکل میں ابھرنا چاہیے۔ اسی مقصد کے لیے شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی، ابراہیم المقادم اور دیگر رفقاء نے حماس کی بنیاد رکھی۔

حماس کی بنیاد تین اہم اصولوں پر رکھی گئی: جہاد، رفاہِ عامہ، اور تعلیمی بیداری۔ یہ تنظیم نہ صرف عسکری میدان میں سرگرم رہی بلکہ فلسطین کے طول و عرض میں اسکول، ہسپتال، رفاہی ادارے اور یتیم خانے بھی قائم کیے۔ حماس نے اپنے منشور میں واضح کیا کہ وہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست تسلیم نہیں کرتی اور وہ فلسطین کے مکمل آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کے قیام تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

حماس کی قیادت نے اپنی جدوجہد کا خمیازہ ذاتی قربانیوں کی صورت میں بھگتا۔ اس کے بانی رہنما شیخ احمد یاسین 2004ء میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید کر دیے گئے۔ ان کے قریبی ساتھی عبدالعزیز رنتیسی بھی صرف ایک ماہ بعد فضائی حملے میں شہید ہوئے۔ ابراہیم المقادم، صلاح شہادہ، احمد الجعبری، نزار راین، اور اسماعیل ابوشنب جیسے جری سپوت بھی اسی راہ میں شہید ہوئے۔ ان سب نے زندگی کے ہر لمحے کو حریت و آزادی کے نصب العین کے لیے وقف کیا اور شہادت کو گلے لگا لیا۔

حماس کی اسٹریٹجی وقت کے ساتھ تبدیل اور ترقی کرتی گئی۔ ابتدائی دور میں تنظیم نے پتھروں، دستی بموں، اور خفیہ حملوں سے مزاحمت شروع کی۔ بعد ازاں القسام بریگیڈ کے قیام کے ساتھ حماس نے عسکری مزاحمت کو منظم کیا۔ القسام بریگیڈ نے میزائل سازی، سرنگوں کے جال، اور چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے اسرائیلی افواج کو کئی مرتبہ پسپائی پر مجبور کیا۔ 2006ء میں حماس نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور دنیا کو حیران کر دیا کہ ایک مزاحمتی تحریک سیاسی میدان میں بھی اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔

حماس کو اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا گیا، لیکن دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے یہ تنظیم مزاحمت، حریت اور غیرت کا نشان بن گئی۔ غزہ پر اسرائیلی محاصرے اور شدید پابندیوں کے باوجود حماس نے نہ صرف اپنے نظم و ضبط کو قائم رکھا بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے بغیر اپنے دفاعی نظام کو ترقی دی۔

13 اکتوبر 2023ء کو حماس نے "طوفانِ الاقصیٰ" نامی آپریشن شروع کیا جو کہ تاریخ کے سب سے جرأت مند اور منظم مزاحمتی حملوں میں سے ایک تھا۔ ہزاروں راکٹ اسرائیل پر داغے گئے، سرنگوں کے راستے کئی علاقوں میں داخل ہو کر اسرائیلی چوکیوں پر قبضہ کیا گیا، اور اسرائیل کو ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکہ لگا۔ یہ وہ دن تھا جب دنیا نے دیکھا کہ ایک محدود وسائل رکھنے والی محصور قوم کس طرح دنیا کی جدید ترین عسکری ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

اس آپریشن کے نتیجے میں اسرائیل نے جوابی حملوں میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا، جن میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود حماس کی قیادت، مجاہدین اور عام عوام کی ہمت میں کمی نہیں آئی۔ ان کے ہونٹوں پر وہی نعرہ رہا: "القدس لنا" (یروشلم ہمارا ہے) اور "لا صلح مع المحتل" (قابض سے صلح نہیں ہو سکتی)۔

اس مزاحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حماس نے عرب اور اسلامی دنیا کو جگانے میں بھی کردار ادا کیا۔ ترکی، ایران، قطر اور دیگر کئی مسلم ممالک نے حماس کی اخلاقی حمایت کی۔ عوامی سطح پر مظاہرے، بائیکاٹ مہمات، اور سوشل میڈیا پر غزہ کے حق میں چلنے والی مہمات نے دنیا کو مجبور کیا کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو ایک بار پھر سنجیدگی سے دیکھے۔

حماس کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظاہری عسکری طاقت سب کچھ نہیں ہوتی۔ جب ایک قوم اپنے عقیدے، زمین اور عزت کی حفاظت کا عزم کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے غلام نہیں بنا سکتی۔ حماس کی مزاحمت صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک نظریہ بن چکی ہے۔ یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ قابض کو تسلیم کرنا بزدلی ہے، اور آزادی کی راہ میں شہادت سب سے بڑی کامیابی ہے۔

آج جب دنیا مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر حماس کو دہشت گرد کہتی ہے، تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دہشت گرد وہ ہے جو اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور کیمپوں پر بم برساتا ہے۔ دہشت گرد وہ ہے جو بچوں کو قید کرتا ہے، عورتوں کو بے پردہ کرتا ہے، اور نسل کشی کے منصوبے بناتا ہے۔ حماس وہ نہیں جو دہشت گردی کرے بلکہ وہ ہے جو ان مظالم کے خلاف دیوار بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔

یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ اُن ہزاروں شہداء کی نذر ہیں جنہوں نے صرف اپنے وجود نہیں بلکہ اپنی نسلوں، اپنی معیشت، اور اپنے گھروں کی قربانی دے کر امت مسلمہ کو جگانے کی کوشش کی۔ یہ اُن ماؤں، بہنوں اور بچوں کو سلام ہے جو بمباری میں اجڑ کر بھی اپنے لبوں پر دعائیں رکھتے ہیں۔

حماس کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یہ ایک تحریک ہے، ایک نظریہ ہے، ایک ولولہ ہے۔ یہ تحریک ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی، ظلم کی حمایت ہوتی ہے۔ اور حماس ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ سچائی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔

اگر امسلم ممالک نے آج بھی فلسطین کے اصل مسئلے کو نہ سمجھا تو کل وہ خود اسی ظلم کی زد میں ہوں گے۔ کیونکہ یہ ظلم صرف ایک فلسطین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ بڑھے گا پھیلے گا اور آخرکار اُن کے دروازوں تک آ جائے گا جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

حماس کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے کہ جب تک عقیدہ زندہ ہو، بندوقوں، ٹینکوں اور بموں سے بھی بڑا ہتھیار بن جاتا ہے۔