ہوم << فلسطین: خاموش عرب اور بے بس امت - نعیم اللہ باجوہ

فلسطین: خاموش عرب اور بے بس امت - نعیم اللہ باجوہ

فلسطین کا مسئلہ صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں، بلکہ ایک عظیم انسانی المیہ، مذہبی غیرت اور امت مسلمہ کے اتحاد کا امتحان ہے۔ اس مسئلے پر مسلم دنیا، خصوصاً عرب ممالک کی خاموشی یا بے بسی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو حیرت اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔

آخر کیا وجوہات ہیں کہ وہ ممالک جو ایک وقت میں خلافتِ اسلامیہ کا مرکز ہوا کرتے تھے، آج فلسطین کے ستم زدہ عوام کی عملی مدد سے قاصر نظر آتے ہیں؟ صرف مذمتی بیانات، ہمدردی کے اظہار اور رسمی اجلاسوں تک محدود ہو کر کیا ہم واقعی اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں؟

تاریخی طور پر فلسطین اسلام کا ایک مقدس اور مرکزیت کا حامل خطہ رہا ہے، مگر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ مظلومیت اور جدوجہد کی علامت بن چکا ہے۔ آج، جب اسرائیلی افواج غزہ پر بمباری کر رہی ہیں، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی ہو رہی ہے، اور معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے، تب بھی بیشتر عرب حکومتیں محض بیانات تک محدود ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ عالمی سیاست کی وہ گرفت ہے جس نے ان ممالک کو مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکہ کے اثر سے آزاد ہونے نہیں دیا۔ سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک یا تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں یا خاموش تائید کی راہ پر گامزن ہیں۔ کئی عرب حکومتیں سیاسی، اقتصادی اور فوجی لحاظ سے مغرب کی مرہون منت ہیں، جس کی وجہ سے ان کی آزادی رائے محدود ہو چکی ہے۔

داخلی بدامنی، معاشی بحران، اور جمہوری اقدار کی غیر موجودگی نے ان حکومتوں کو عوامی امنگوں سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ جب عوام کی آواز پالیسی سازوں تک نہ پہنچے، تو فلسطین کے حق میں اُٹھنے والے نعرے صرف سوشل میڈیا تک محدود ہو جاتے ہیں۔ عرب دنیا میں موجود کئی بادشاہتیں اور آمریتیں اپنی بقا کی خاطر بیرونی طاقتوں کی حمایت کی محتاج ہو چکی ہیں۔

امت مسلمہ کا قیادت کا بحران، او آئی سی جیسے اداروں کی غیر فعالیت، اور باہمی فرقہ وارانہ و سیاسی تقسیم نے بھی فلسطین کو تنہا کر دیا ہے۔ ہر ملک اپنی بقا، تجارت، اقتدار اور علاقائی اثرورسوخ کی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ ایران، ترکی، قطر جیسے ممالک اگرچہ آواز بلند کرتے ہیں، مگر ان کی کوششیں بھی محدود دائرے تک سمٹ جاتی ہیں۔

اب وقت ہے کہ مسلم دنیا اس خاموشی کو توڑے، مشترکہ لائحہ عمل اپنائے، اور فلسطینی عوام کے حق میں عملی، سفارتی، اقتصادی اور ابلاغی محاذوں پر جدوجہد کرے۔ یہ جدوجہد صرف فلسطین کی آزادی کے لیے نہیں، بلکہ امت مسلمہ کی روح کو زندہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی، اور مظلوموں کی آہیں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہیں گی۔