بلوچستان میں دہشت گردی کی واردات میں شہر اور صوبے کے اعلی لوگ قتل کر دیے گئے. ایک ہی آن میں اعلی دماغ لوگوں کے چیتھڑے اُڑا دینے کی قاتلین کو کھلی آزادی ہے. بلوچستان میں زندگی ایک سزا سے کم نہیں ہے. آپ پاکستانی ہیں، مگر آپ پسنی اور گوادر کے خوبصورت سمندر پہ اپنی سالانہ چھٹیاں گزارنے نہیں جا سکتے، کیوں؟ یہ کیسی آزادی ہے؟ کیا فیصل آباد کا ایک عام شہری کوئٹہ کی حانا جھیل کی سیر پر جا سکتا ہے؟ آخر ہمیں ہنگول دریا کی خوبصورتی دیکھنے کی آزادی کیوں نہیں ہے؟ اگر ہم بلوچستان میں آزادانہ سفر کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تو ہم جشن کس آزادی کا منانے جا رہے ہیں؟ آئیے لاشوں، اجتماعی قبروں اور لاپتہ افراد سے معمور بلوچستان کو بھول کر باقی پاکستان کا جشنِ آزادی مناتے ہیں.
باقی پاکستان؟ کیا کسی پاکستانی کے لیے رزمک، شوال یا میرعلی کی حسین وادیوں کی سیر پہ جانا ممکن ہے؟ یا پھر چنیوٹ کے ایک تاجر کے لیے وانا کے بازار میں جا کر لکڑی کا فرنیچر بیچنا ممکن ہے؟ نہیں؟ کیوں نہیں؟ اور آخر کیوں نہیں؟ یہ کیسی آزادی ہے؟ یہ کیسا جشن ہے؟ میں شادیانے بجانے اور جشن منانے کے حق میں ہوں. خوشیاں منانے اور مسکرانے کے حق میں ہوں. مگر یہ جشن کس آزادی اور کیسی آزادی کا جشن ہے؟
کیا لاہور کے شہری علاقے بھٹہ چوک کا ایک رہائشی اپنے دس سالہ بچے کو اکیلے سکول بھیجنے کی جرات کر سکتا ہے؟ لاہور سے بچوں کے اغوا کی آنے والی خوفناک، درد ناک اور تکلیف دہ خبریں کیا ہیں؟ بچوں کے جسمانی اعضاء اور ادھڑی ہوئی لاشوں کی خبریں کیا ہیں؟ شاہدرہ، نشتر کالونی، نیوانارکلی جیسے لاہور کے شہری علاقوں سے اغوا ہونے والے بچوں کی خبریں کیا ہیں؟ پنجاب سے روزانہ دسیوں بچے اغوا ہو رہے ہیں؟ یہ آزادی کیسی آزادی ہے؟ یہاں اغواکاروں کو آزادی ہے، جشن اُن کو منانا چاہیے.
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے لیے صرف ایک لاکھ 28 ہزار ڈاکٹر دستیاب ہیں. جبکہ پاکستان دنیا کے اُن پانچ ممالک میں سے ایک ہے جن کے ڈاکٹر سب سے زیادہ تعداد میں اپنے ملک سے باہر خصوصاً امریکہ اور سعودی عرب میں خدمات پیش کرتے ہیں. اپنے ملک میں ڈاکٹروں کی شدید قلت کے باوجود ڈاکٹر بیرونِ ملک کیوں جاتے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے. دنیا میں وہ ملک شرم کرتے ہیں جہاں BRAIN DRAIN کا عنصر پایا جاتا ہو. مگر ہمارے ملک پاکستان کے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند طبقے پاکستان سے باہر جاکر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، کیونکہ ہماری حکومتیں بیرون ملک حکومتوں کی طرح سہولیات دینے سے قاصر ہیں.
ایشیا میں سب سے زیادہ خواتین میں چھاتی کا کینسر اور انڈاشی کینسر پاکستان میں پایا جاتا ہے. پاکستان میں ہر 09 خواتین میں ایک عورت کو چھاتی کے کینسر کا خطرہ لاحق ہے. مگر اُس کے باوجود پاکستان میں کینسر ہسپتالوں کی تعداد انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے. جبکہ کینسر پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا مرض بن چکا ہے. تکلیف دہ بات یہ ہے کہ لوگ اپنے مریضوں کا علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے. اِس کی سب سے بڑی وجہ صحتِ عامہ کا شعبہ 80 فیصد تک نجی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہونا ہے. نامعلوم سرکار عوام سے ٹیکس کس مد میں لیتی ہے. ایک دریا کی پل سے گزرو تو ٹیکس دو، ایک موبائل فون کی سِم میں بیس روپے کا ایزی لوڈ کرواؤ تو بھی ٹیکس دو، ایک ماچس خریدو تو بھی ٹیکس دو، گھر خریدو ٹیکس دو، موٹر سائیکل خریدو ٹیکس دو، موٹرسائیکل کی رجسٹریشن کرواؤ تو ایک بار پھر سے ٹیکس دو، پھر اُسی موٹرسائیکل میں پٹرول
ڈلواؤ تو بھی ٹیکس دو. اور ٹیکس کے بدلے ہمیں مِل کیا رہا ہے؟ ندارد! لیہ جیسے چھوٹے سے شہر میں کوئی پانچ کے قریب سرکاری جشنِ آزادی کیمپ لگائے گئے ہیں، مگر لیہ کے سرکاری ہسپتال میں بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلہ دستیاب نہیں ہے. کیا یہ بےحسی اور منافقت کا مظاہرہ نہیں ہے؟
دنیا بھر میں بچوں کی اموات میں نمایاں ممالک میں سے پاکستان ایک ہے. پاکستان کے 16 لاکھ بچے گلیوں اور شاہراہوں پہ زندگی گزار رہے ہیں. بھکاریوں اور کوڑادانوں میں سے کھانا ڈھونڈنے والوں کی اکثریت 14 سال سے کم عمر بچوں کی ہے. جبکہ دوسری طرف پانچ سے سولہ سال کی درمیانی عمر کے اڑھائی کروڑ بچے بچیاں اسکول جانے سے قاصر ہیں. یہ تعداد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پہ آتی ہے. یعنی آپ کی آنے والی نسل کے اڑھائی کروڑ افراد ان پڑھ ہوں گے، کیا آپ اِسی بات کا جشن منانے جا رہے ہیں؟ یومیہ پاکستان میں دس بچے
جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے. دوسری طرف پاکستان میں چائلڈ لیبر جیسا معاملہ روز افزوں بگڑ رہا ہے. قالین بافی اور فرنیچر سازی جیسی چھوٹی صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کی نوے فیصد تعداد 14 سال سے کم عمر بچوں کی ہے (یونیسف). سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ بچے چائلڈ لیبر جیسی لعنت میں مبتلا ہیں. لیکن حقیقی اعداد و شمار اِس سے زیادہ ہیں.
ہر چھ میں ایک بچہ پانچ سال کی عمر پانے سے قبل ہی مر جاتا ہے. 35 فیصد پاکستانی بچے درکار مناسب وزن سے کم وزن ہیں جبکہ پچاس فیصد پاکستانی بچے کمزور نشو و نما کا شکار ہیں. اور روزانہ گیارہ سو بچے اسہال کے سبب مر رہے ہیں. بچوں کی صحت خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک چیلنج ہے کیونکہ وہاں پائی جانے والی غربت ایک عذاب سے کم نہیں. پاکستان کی 62.3 فیصد آبادی قطعی غربت کا شکار ہے، یعنی یومیہ ایک سو پچیس روپے سے بھی کم آمدنی کمانے والی آبادی. جبکہ پاکستان کی آدھی کے قریب آبادی خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہے.
اور اِن تمام مسائل کی ماں دولت اور وسائل کی غیرمساوی تقسیم کا معاملہ اِس سرزمین پر روز بروز بدتر ہو رہا ہے. پاکستان کی بالائی دس فیصد آبادی کے پاس پاکستان کی تیس فیصد دولت کے انبار ہیں اور پاکستان کی زیریں دس فیصد آبادی کے پاس صرف چار فیصد وسائل ہیں. آج پاکستان بڑے بڑے جاگیرداروں کا گھر ہے جن کے پاس ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی ہے، جبکہ وہ خود اُن زمینوں پہ کوئی کام نہیں کرتے، لیکن ہاریوں اور مزارعوں کی شکل میں اُن کے پاس زرعی غلام موجود ہوتے ہیں. اکاون فیصد کرایہ داروں اور مزارعوں کے پاس اِن جاگیرداروں کی بھاری رقمیں واجب الادا ہیں. انہی بنیادوں پر یہ جاگیردار اِن کا شدید استحصال و استعمال کرتے ہیں. یہ استحصال سیاسی، سماجی، مذہبی، ذہنی، قلبی، معاشی اور جسمانی نوعیت کا ہے.
ہم جشن منانا چاہتے ہیں، مگر حقیقی جشن...! پارس جان کے مطابق آبادی کی اکثریت کے لیے پاکستان ایک وسیع الجثہ قید خانے کا نام ہے جس کی باگ ڈور شیطانی حکمران ٹولے کے ہاتھوں میں ہے. ہندوستان سے برطانوی حاکم چلے گئے، نئے اور اپنے حاکم آگئے. نام تبدیل ہوئے، کام وہی ہیں کیونکہ نظام وہی ہے. آزادی حکام بدلنے سے نہیں، نظام بدلنے سے ملے گی. بھگت سنگھ نے کہا تھا کہ ہم گورے حکمران ہٹا کر ہندوستانی حکمرانوں کو لے آنے کی جدوجہد نہیں کر رہے، ہم سوشلسٹ ہندوستان کی جدوجہد کر رہے ہیں. حقیقی آزادی اُس وقت ملے گی جب خلقِ خدا راج کرے گی. آصف رشید کے الفاظ میں: مملکتِ خداداد میں آج جہالت اور محرومی اس آزادی کا منہ چڑا رہی ہے، منشیات کا استعمال اور کاروبار ایک اربوں روپے کے منظم دھندے کا روپ دھار چکا ہے، کرپشن اور رشوت سماج کی نس نس میں رچ بس کراخلاقی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جسم فروشی ایک منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتی ہے، دہشت گردی ایک مستقل وبا بن کر پھیل رہی ہے، اغوابرائے تاوان سماج کی وحشی قوتوں کا عام چلن ہے، سٹریٹ کرائم، قتل وغارت، خودکشی، دھوکا دہی، منافقت، جھوٹ، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور وحشت و بربریت اس آزادی کے انعام بن کر اس خطے میں نسلِ انسان کو برباد کر رہے ہیں۔ آبادی کی ایک بڑی اکثریت کے لیے اس آزادی میں کو ئی مطلب و معنی ہی نہیں ہیں۔ ریاست اور اس کا غلام میڈیا حکمران طبقے کی لوٹ کھسوٹ اور جرائم کو آزادی کے اس جشن کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ جہاں زندگی سسک رہی ہو، انسان تڑپ رہا ہو وہاں کیسی آزادی؟ کیسا جشن؟
کروڑوں محنت کش عوام کو آزادی کے سراب میں نہیں رکھا جا سکتا. روایتی ملی نغموں، بےرنگ نعروں اور جشنِ آزادی کیمپوں سے کھوکھلے پن کا اظہار ہوتا ہے. جب تک یہ نااہل حکمران طبقہ، جاگیردار گروہ اور ہوس زدہ سرمایہ دار اِس ملک پہ مسلط ہیں، پاکستان کی عوام کو آزادی نصیب نہیں ہو گی. موجودہ تعفن زدہ اور حبس زدہ حالات میں جشن منانا ایک گناہ لگتا ہے.
تبصرہ لکھیے