اکتوبر سے پہلے غزہ میں امن و سکون کی چہکار تھی، پھولوں کی خوشبو میں فلسطینی بچے ہنستے کھیلتے تھے، اور اسرائیل، وہ ”امن کا دیوتا“، دور کہیں کونے میں مراقبے کی حالت میں بیٹھا، محبت، آشتی اور بھائی چارے کا ورد کر رہا تھا۔
دنیا کے سب سے ”معصوم“ لوگ—اسرائیلی—انسانی دکھوں پر آہیں بھرتے، فلسطینیوں کے حق میں دعائیں کرتے، اور شاید کہیں قرآنِ پاک کے ترجمے بھی پڑھ رہے تھے تاکہ سمجھ سکیں کہ مسلمانوں کا دل جیتا کیسے جاتا ہے۔
اور پھر اچانک!
وہی حماس، جسے نہ سکون راس آیا نہ امن، اٹھ کھڑی ہوئی۔ نہ جانے کیا جنون سوار ہوا، کیا حماقت کا دورہ پڑا کہ ” بیچارے اسرائیل“ پر حملہ کر دیا۔
اب اسرائیل ”مجبور“ ہو گیا۔ فوراً واشنگٹن فون کیا، ”ابو، مارا مجھے! بچا لو!!“
امریکہ، جو پہلے ہی ہمدردی کے مارے رو رہا تھا، فوراً دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اسلحے کے انبار لے آیا۔ جدید بم، میزائل، بارود، ٹینک، جاز، سب کچھ مہیا کیا، تاکہ اسرائیل ”اپنا دفاع“ کر سکے۔
اب دفاع ہو رہا ہے۔
یعنی اسکولوں پر بمباری، اسپتالوں پر حملے، مسجدیں زمین بوس، بچوں کے جسم ٹکڑوں میں، ماؤں کی گودیں خالی، بوڑھے کرب میں، نوجوان ملبے تلے، اور ساری دنیا خاموش!
اور مسلمان ممالک؟
ارے جناب، وہ تو پہلے ہی ”امن“ کے اتنے دلدادہ ہو چکے ہیں کہ اپنے ضمیر کو تکیے کے نیچے رکھ کر سو چکے ہیں۔
یہ وہ منافق ہیں جو مسجدوں میں اذان دیتے ہیں، اور ایوانوں میں امریکہ کی پوجا کرتے ہیں۔ اقتدار کا نشہ، کرسی کی محبت، اور واشنگٹن کے ”ویٹو“ کی چمک نے ان کی بصیرت، غیرت اور حمیت کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔
یہ وہ بادشاہ اور صدور ہیں جو عالیشان محلات میں بیٹھے، غزہ کی تباہی کو اپنے HDTV اسکرین پر ”لائیو“ دیکھ کر ناشتہ مکمل کرتے ہیں، اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر کہتے ہیں: ہمیں معاملہ مزید خراب نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن یہاں تک بات رکی نہیں۔۔۔
اب ایک نیا قبیلہ میدان میں آیا ہے نام نہاد مسلم دانشور!
ریالوں اور ڈالروں نے ان کے لب و لہجے، قلم اور ضمیر سب خرید لیے ہیں۔
کوئی مغربی تھنک ٹینک کا نمائندہ بن کر اسرائیل کی ”حفاظتی کارروائی“ کو جائز قرار دیتا ہے،
کوئی دہشت گردی کی نئی تعریف گھڑ کر مظلوم فلسطینیوں کو اس میں فٹ کرتا ہے،
اور کوئی عرب چینل پر بیٹھ کر اس المیے کو ”دونوں فریقوں کی غلطی“ کہہ کر برابر کا شریک بناتا ہے۔
ان میں کچھ خودنمائی کے ایسے بیمار ہیں کہ غزہ کے بچوں کے لاشوں کا مذاق اڑاکر شہرت چاہتے ہیں، اسرائیلی بمباری کو جواز دیتے ہیں
چاہے پیچھے پس منظر میں لاشیں پڑی ہوں یا بارود کا دھواں اٹھ رہا ہو۔
اور کچھ تو اتنے بے غیرت ہیں کہ اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر یا ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں تجزیہ فرما کر وی لاگ، تصاویر، اور ”احساساتی“ بیانات دے رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شہرت کی بھوک نے ان کی انسانیت کو مکمل ہضم کر لیا ہے۔
یہ خون کے دریا میں کھڑے ہو کر ٹک ٹاک بنانے والے دراصل نئی نسل کے وہ ابلیس ہیں جنہوں نے ظلم کو بھی ایک ”کانٹینٹ“ بنا دیا ہے۔
غزہ کے بچوں کی چیخیں ان کے ایڈیٹنگ سافٹ ویئر کے بیک گراؤنڈ میں دب جاتی ہیں
اور تباہ حال مائیں ان کے کیمرہ اینگل کی ”بیوٹی“ خراب کرتی ہیں۔
کیا ان سے ایمان کی توقع رکھی جائے؟
کیا ان سے انصاف کی آس لگائی جائے؟
کیا ان سے غیرت کی امید کی جائے؟
نہیں!
یہ وہ ”ذلیل“ طبقہ ہے جو قیامت کے دن اپنے لائیکس، فالورز اور ”کانٹینٹ انگیجمنٹ“ کا حساب دے گا،
اور جب معصوم فلسطینی بچوں کا خون ان کے سکرین شاٹس سے ٹپکے گا،
تو وہاں کوئی ہیش ٹیگ انہیں چھپا نہیں سکے گا۔
تبصرہ لکھیے