ہوم << ارشاد بھٹی صاحب کا تازہ انٹرویو - حافظ یوسف سراج

ارشاد بھٹی صاحب کا تازہ انٹرویو - حافظ یوسف سراج

ارشاد بھٹی صاحب بالکل ٹھیک جا رہے ہیں،وہ وہی کر رہے ہیں،جو اس ملک میں بکتا ہے، جس پر فالورز اور ویوز ملتے ہیں، ارشاد بھٹی وہی کر رہا ہے، جو پورا ملک کر رہا ہے، پورا ملک وہی کر رہا ہے، جو اسے کرنا نہیں آتا، یہی ارشاد بھٹی کر رہا ہے۔

عام عربی تلفظ تک کی ادائیگی میں وہ غلطی کر جاتا ہے، حالیہ پورے انٹرویو کے دوران علامہ کی ع کے نیچے وہ زیر پڑھتا رہا، حالانکہ علامہ اقبال کے ساتھ لگنے کی وجہ سے یہ تو سکول کے نصاب کا لفظ ہے، حدیث کی کتاب مسند احمد میں مسند کی میم پر وہ زبر پڑھتا رہا، جس سے مطلب کا کباڑہ اور کہنے والا کباڑی ہو جاتا ہے۔ مشہور منافق عبداللہ بن ابی کا نام لیتے ہوئے وہ ابی کے الف پر زبر پڑھتا رہا، جس سے لفظ کا مطلب بن جاتا ہے، میرا باپ۔ اب اس طرح پڑھنے سے لفظ کا مطلب منافق عبداللہ میرا باپ بنتا ہے تو بنتا رہے، اسے کیا پروا؟ یہ ٹینشن ان کی، جنھیں عربی آئے۔

بنیادی طور پر یہ آئیڈیا جس کا بھی ہے، آئیڈیا یہ ہے کہ مرزا صاحب کے اٹھائے گئے دلائل کا کسی کے پاس جواب نہیں، کچھ تو یہ بات سچ بھی ہے کہ کئی جگہ بے بنیاد کہانیاں بھی واعظانہ طور پر تبلیغ دین کے طور پر بطور دین اسلام میں داخل کر لی گئی ہیں، ایک عرصہ کام چلتا رہا، جب کوئی اعتراض کرتا تو کہا جاتا یہ تو مخالف فرقے کا مولوی ہے، اس کو ہمارے اکابر سے ویسے ہی دشمنی ہے اور پھر یہ تو خود بدعقیدہ ہے۔ مرزا کا معاملہ دوسرا تھا، وہ کسی فرقے کا مولوی نہ تھا، زبان بھی اسے وہ آتی تھی، سوشل میڈیا پر جو سکہ رائج الوقت ہوچکی ہے۔ کچھ کام جدید میڈیا پر دستیاب احادیث کے ریفرنس نے کر دکھایا، تو کہانیاں تو بہرحال قابل اصلاح موجود تھیں، لیکن یہ قوم کی قسمت کہ اسے آپریشن کرنے کیلئے سرجن کے بجائے قسائی مل گیا۔ تو شور تو پھر اٹھنا ہی تھا۔ ایسی کہانیوں میں سے بعض کی اہل فکر تاویل بھی کر لیتے ہیں مگر بعض ایسی بھی ہیں، جو تاویل کی گرفت میں بھی نہیں آتیں، یا عام عقل کے لیے جن کی تاویل قابل قبول نہیں ہوتی۔

یہاں تک تو کام ٹھیک تھا، مرزا صاحب کا بھی اور ارشاد بھٹی صاحب کا بھی، انٹرویوز میں جب تک بات یہاں تک رہی تو خود اہل فقہ نے صاف کہہ دیا کہ ہم ان چیزوں کو نہیں مانتے،لکھ دیا ہوگا بزرگوں نے کسی روانی میں، انسان تھے غلطی ہوگئی ہوگی۔

اس پر ارشاد بھٹی کی بڑی بلے بلے ہوگئی، ادھر مرزا صاحب بھی خوش کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ یہ سب رام کہانیوں ہیں، پھر بعد میں خیر انھی چیزوں کا کچھ دوسرے علما نے دفاع کرنے کی بھی کوشش کی، مگر اس طرح کا دفاع اپنے مسلک میں تو جشن فتح کا باعث بن جاتا ہے مگر نیوٹرل لوگ اپنی رائے بنانے میں آزاد ہوتے ہیں، وہ بات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن اس سے آگے مرزا صاحب نے جو میدان منتخب کیا، وہ مسلمانوں کے دو فرقوں کے مابین کئی صدیوں سے وجہ تقسیم چلا آتا ہے، اس کی حیثیت عقیدے کی نہیں ، نہ عبادات سے اس کو کوئی تعلق ہے،نہ آخرت ان تاریخی واقعات سے متاثر ہوتی ہے، ان واقعات کی حیثیت محض تاریخی ہے، لیکن اس کی زد بڑی مقدس ہستیوں پر پڑتی ہے، اس معاملے میں چسکا تو بہت ہے، عام پبلک ایسے مقرر کو بڑا عالم بھی سمجھتے ہیں، پھر ہر فکر کے پیچھے کوئی ایک فرقہ اور اس کی تاریخ بھی کھڑی ہو جاتی ہے، شہرت کو پر لگ جاتے ہیں، یوٹیوب کا دور ہو تو ڈالروں کو بھی، بڑی واہ واہ اور پزیرائی ملتی ہے، مگر اس سے بڑے نازک مقام سے بھی گزرنا پڑتا ہے، کبھی تو آخرت تک داؤ پر لگانے کا رسک مول لینا پڑتا ہے۔ وہ یوں کہ ہم ایسے کمتروں کی طرف سے ان مقدس ہستیوں پر رائے زنی بھی ہو جاتی ہے، جس سے آخرت کی تباہی کو سوچ کے محتاط زبانیں اور احتیاط پسند وجود لرزکے رہ جاتے ہیں۔ ایسی احتیاط کے لیے مگر جو تقوی چاہئے، وہ آج کہاں میسر ہے؟ مثلا چغلی اور غیبت کون نہیں جانتا گناہ ہے؟ کتنے باز رہ پاتے ہیں؟ تو لوگ صحابہ کے منصف بن کے بیٹھتے ہیں تو ایسوں کو سننے پھر لاکھوں کی تعداد میں لوگ یوٹیوب پر بیٹھتے ہیں۔

تو ہوتا یہ ہے کہ کہانیوں سے بڑھ کر جب بھٹی صاحب اس خار زار میں داخل ہوتے ہیں تو ان سے کوئی جواب نہیں بن پاتا، اس لیے کہ علم بھٹی صاحب کے ہاتھوں میں تھامے گئے کاغذوں میں نہیں ہوتا، علم اردو کے تراجم پڑھ لینے میں بھی نہیں ہوتا،یہی وجہ ہے کہ دینیات کو۔۔ عربی کو بنیادی سورس سمجھ کے نہ پڑھنے والے اکثر لوگ خود بھی پٹری سے اترے ہیں اور بہت سے لوگ ان کی فکر کی خوراک بھی بنے ہیں، یعنی جب آپ عربی سمجھے بغیر امت کی مجموعی فکر سے انحراف کرتے ہیں تب، وگرنہ عربی سمجھے بغیر مسلمان ہونا اور دین پر عمل کرنا چنداں مشکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، جو اردو سے قرآن یا دین سمجھ کے بھٹک کے اوروں کو بھی بھٹکا رہے ہوتے ہیں،تو ان کی سطحیت پر مجھ سا بہت کم عربی سمجھنے والا بھی ہنس اٹھتا ہے، انھیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ اپنی ہی دانش کا مذاق اڑا رہے ہیں، ایسے ہی ایک صاحب ہمارا قرآن بھی سیدھا کروا رہے ہوتے ہیں، یہ کوئی تعلی یا تفاخر نہیں،حقیقت ہے کہ عربی کو بنیاد بنا کے نہ سمجھا گیا دین بہت دفعہ محمد عربی کا دین نہیں رہتا، ایک مثال مثلا کذب کے لفظ کا معنی ہر جگہ جھوٹ نہیں ہوتا، اردو زبان میں اتنے لفظ ہی نہیں جو ایک ہی چیز کے مختلف ناموں پر مشتمل ہر عربی لفظ کا ٹھیک ٹھیک معنی دے سکیں، مثلا جب ہم کہتے ہیں کہ اونٹ کے لیے عربی میں ہزار سے زیادہ لفظ ہیں تو ہر جگہ ان کا معنی مختلف ہوگا،چلیے چاند کی مثال لے لیجیے، ہلال کا معنی اور ہوگا،پہلی راتوں کا باریک چاند، بدر کا معنی اور ہوگا، یعنی چودھویں کا چاند، لیکن اردو والا ایک معنی دیکھ کے ہر جگہ عربی لفظ کا وہی معنی کرنے لگتا ہے اور سٹ پٹا کے باقاعدہ بوندل جاتا ہے، اور کبھی بے دین ہونے تک چلا جاتا ہے، پھر عربی میں پری پوزیشن سے بھی معنی بدلتا ہے، مثلا دعا کے بعد علی کا لفظ آ جائے تو اس کا معنی بد دعا ہو جاتا ہے، عرب بڑے زیرک تھے، حجاج بن یوسف کو جب کسی نے عادل کہا تو اس نے کہا، اس کی مراد عدل کا دوسرا روٹ ورڈ ہے،یہ میری تعریف نہیں تذلیل کر رہا ہے۔ تو یہ تو ہے عربی کا معاملہ ۔ بات کچھ دور نکل گئی۔

تو خیر ایسے میں جب ارشاد بھٹی ان وادیوں میں آتا ہے تو ڈگمگانے لگتا ہے، تاریخ کا سارا فہم اور فرقوں کے اختلاف اس نے مرزا صاحب کی تقریروں سے لے لیے ہیں، کوئی ٹیم بھی رکھی ہے شائد، انٹرویو والی ہدف شخصیت کے متعلق جس کی کل تحقیق مرزا سے اختلافی پوائنٹ ہوتے ہیں، یا اس کی ذات کے کچھ تضادات۔ اب کے ابتسام الہٰی ظہیر کے مسلک کیساتھ چونکہ قصے کہانیوں والی بات تو چل نہیں سکتی تھی، اس لئے مرزا کیساتھ اختلاف کو بلا وجہ بہت کھینچا گیا، بور بھی کیا اور انٹرویو کو بے ذائقہ بھی کیا، یہ انداز خود بھٹی صاحب کے اس انٹرو کے بھی خلاف پے، جس میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ میری علما سے ملاقات کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایک کیوں نہیں؟ جبکہ ان کے انٹرویو کا ایک پورشن یہ ہوتا ہے کہ آپ مرزا کو حق پر کیوں نہیں مانتے؟ وہ اس پر بہت دیر تک بحث کرتے ہیں، اس کے باوجود کرتے ہیں کہ کاغذوں پر لکھے سے الگ بات چلی جائے تو جناب قطعا سمجھ نہیں پاتے، اس لیے کہ یہ ان کا کپ آف ٹی ہے ہی نہیں، وہ بہرحال ان کاغذوں پر لکھے کو خوب سمجھ کے انٹرویو کرنے بیٹھ جاتے ہیں،بالکل ویسے ہی جیسے یوٹیوب سے ڈرائیونگ سیکھ کے کوئی گاڑی سٹارٹ کرکے بیٹھ جائے۔پچھلے سارے انٹرویوز میں بھٹی صاحب کو اچھی ریٹنگ مل گئی، اس لئے وہاں ان چیزوں کو ہٹ کیا گیا، جن کے دلائل براہ راست قرآن و حدیث سے نہیں ملتے، نتیجہ یہ نکلا کہ سامنے بیٹھ کر کئی سکالر ان چیزوں سے انکار کرتے رہے۔ اس بار یہ چیز تو تھی نہیں،اس لئے انٹرویو کا بہت سا حصہ بیکار اور وقت کا زیاں ثابت ہوا۔ آخری حصے میں جہاں مرزا کے اٹھائے گئے صحابہ کے بارے جوابات کا ابتسام صاحب نے مدلل جواب دیا، وہاں بھٹی صاحب کوئی جوابی اعتراض اٹھانے کے لائق نہیں تھے۔
باقی پورے انٹرویو پر تبصرہ ابھی میں نہیں کر رہا۔ تاہم فی الوقت اس پوری رام کہانی کا ایک تناظر اور تفہیم بہرحال میں نے چاہا کہ آپ کے سامنے رکھ دوں۔

Comments

Avatar photo

حافظ یوسف سراج

حافظ یوسف سراج پیغام ٹی وی میں بطور اینکر اور ڈیجیٹل میڈیا ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دینی اور سماجی موضوعات پر قومی اخبارات میں کالم لکھے، اخبار مرحوم یا نیم جاں ہوگئے تو یہ کام اب سوشل میڈیا پر ہوجاتا ہے۔ صورت حال کے نام سے تازہ ترین سماجی و دینی موضوعات پر وی لاگز نشر ہوتے رہتے ہیں۔

Click here to post a comment