ہوم << خاموش اُمت کے ماتھے پر لکھا فلسطین کا خون - ادیب احمد راؤ

خاموش اُمت کے ماتھے پر لکھا فلسطین کا خون - ادیب احمد راؤ

جب ظلم اپنے آخری مرحلے پر پہنچ جائے، جب ماؤں کی آہوں سے فضا لرزنے لگے، جب بچوں کی مسکراہٹیں ان کی لاشوں کے ساتھ دفن ہو جائیں، جب اذانیں گولیوں کی آواز میں دب جائیں اور جب مقدس لہو زمین پر بہہ کر کائنات کے ضمیر کو جھنجھوڑ دے—تو سمجھو کہ وہ مقام فلسطین ہے، اور وہ لمحہ قیامت سے کم نہیں۔

فلسطین کی سرزمین آج صرف گولیوں، بارود، آگ اور آہوں کا نشان بن چکی ہے۔ معصوم بچوں کے جسموں کے پرخچے ہو چکے ہیں، ماں باپ اپنے ہی بچوں کے وجود کے ٹکڑوں کو جمع کرنے کے لیے ملبے میں گھٹنوں کے بل رینگتے ہیں۔ وہاں وقت تھم گیا ہے، دھوپ میں جھلستے چہروں پر صرف سوال ہیں، اور ان سوالات کے جواب میں دنیا کی خاموشی ایک زخم کی صورت دل میں اترتی ہے۔

غزہ میں انسانی اعضا بکھرے ہوئے ہیں، گلیوں میں بہتا ہوا خون اب مٹی کو سیراب نہیں کرتا بلکہ ضمیر کو ڈسنے لگا ہے۔ ہسپتالوں کے اندر نہ دوا ہے نہ روشنی، ڈاکٹر ہاتھوں سے زخموں کو سی رہے ہیں، اور اندھیرے میں کسی کونے سے صرف سسکیوں کی صدا سنائی دیتی ہے۔ کہیں کوئی باپ اپنے بچوں کو کندھے پر اٹھا کر دوڑتا ہے کہ شاید زندگی بچ جائے، مگر بمباری کی گرج اس کی فریاد کو خاموش کر دیتی ہے۔ وہ سب کچھ جو انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت تھی، آج وہاں خواب بن چکا ہے۔ ایک ایسا خواب جو کھلی آنکھوں کے سامنے چکنا چور ہو رہا ہے۔

اور یہ سب کچھ ہو رہا ہے دنیا کی بے حسی کے سائے میں، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی مردہ روحوں کے درمیان، اُن ایوانوں کی موجودگی میں جہاں صرف ظلم کی حمایت اور مفادات کا سودا ہوتا ہے۔ لیکن جو بات دل کو سب سے زیادہ چھلنی کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ عالم اسلام، خصوصاً وہ واحد ایٹمی اسلامی ریاست، جس کی ذمہ داری تھی کہ ظلم کے خلاف سب سے پہلے صدا بلند کرے، اُس کے ایوانِ اقتدار میں گہری خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ وہاں کسی زبان کو مذمت کا حوصلہ نہیں، کسی آنکھ میں شرم کا پانی نہیں، کسی ہاتھ میں مدد کا پرچم نہیں۔

فلسطین جل رہا ہے۔ غزہ مٹ رہا ہے۔ وہاں نہ صبح کی امید ہے، نہ رات کا سکون۔ اگر حالات یوں ہی رہے، تو کچھ ہی دنوں میں غزہ کا نام نقشۂ ہستی سے محو ہو سکتا ہے، اور تاریخ میں درج ہو گا کہ ایک قوم تھی جو جیتے جی مر گئی، اور دنیا صرف تماشائی بنی رہی۔ اُن شہید بچوں کی آنکھیں آج بھی آسمان کو تکتی ہیں، کہ شاید کہیں سے کوئی مدد، کوئی روشنی، کوئی غیرت والا آئے—مگر وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

ہم شرمندہ بھی ہیں، غمزدہ بھی، مگر بے عمل۔ اور یہ بے عملی وہ زہر ہے جو صرف اُمت کو نہیں، انسانیت کو بھی نگل رہا ہے۔

اے فلسطین، اے غزہ!
تمہارا درد ہمارے دل میں ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جس کا کوئی مرہم نہیں،
تمہاری چیخیں ہمارے سروں پر ایک ایسا قرض ہیں جس کی ادائیگی ممکن نہیں۔
ہم شرمندہ ہیں، ہم خاموش ہیں، اور شاید ہمیشہ رہیں گے…
مگر تمہارا خون رنگ لائے گا، کیونکہ ظلم کا انجام ہمیشہ رسوائی ہوتا ہے،
اور شہداء کی آہیں عرش کو ہلا دینے والی ہوتی ہیں۔