کہتے ہیں کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہو تا ہے ۔ جانور بھی دکھ و تکلیف میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو تے ہیں ۔ اپنے ساتھیوں کی موت پر آنسو بھی بہاتے ہیں ۔ مگر ہم انسان بے حس ہو چکے ہیں۔ دوسروں پر غلبہ کی خواہش ، طاقت کا بے رحمانہ استعمال، کمزور کا استحصال آج کی دنیا کے اصول بن چکے ہیں۔ہم لاکھ اس بات سے انکار کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کی بین الاقوامی سیاست میں اصول و ضوابط صرف کمزور وں کے لیے ہیں طاقتور اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ جو طاقتور ہے وہی حکمران ہے اور جو حکمران ہے وہی اصول طے کرتا ہے ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اسلحہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اور انسانی بقاء کادشمن بھی۔ لیکن طاقتور اسی بیانیے کو اپنے لیے اصول معکوس کے تحت لیتے ہیں۔
اسرائیل کے جنوبی غزہ پر دوبارہ حملوں نےنہتے فلسطینیوں کو رفح سےجبری نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اور ان کو المواسی کے علاقہ کی طرف دھکیلا جارہا ہے جسے اسرائیلی حکومت سیف زون کا نام دیتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی علاقہ اسرائیلی حملوں کا کئی بار نشانہ بن چکا ہے، یونیسیف کے مطابق 18 مارچ سے اب تک 322بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ایک خبر کے مطابق اسرائیل نے یمنی حوثیوں کے میزائل حملوں سے اپنا کامیاب دفاع کیا ہے ،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس دور حاضر کا جدید ترین روایتی اور جوہری اسلحہ موجود ہے۔ اس کے ٹھوس شواہد بھی ملتے ہیں لیکن اس پر کسی بین الاقوامی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسرائیل اپنے پاس جوہری اسلحہ کی موجودگی کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس سے انکار۔اس کو "جوہری پردہ داری "کی پالیسی کہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں آج تک اس کی تعداد منظر عام پر نہیں آسکی ۔ ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو بڑھاوا مل سکتا ہے ۔ جبکہ انکار نہ کرنے سے اس کی طاقت کا اندازہ لگا نا مشکل ہے اور وہ دنیاکو دھوکے میں رکھ سکتا ہے۔ یہ بھی طاقت کی سیاست کا ایک اہم اصول ہے .۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیل اب تک نہ تو این پی ٹی کا رکن بنا ہے اور نہ ہی اس نے اپنی بہت سی جوہری تنصیبات کے لیے آئی اےای اے کے جوہری پروٹوکولز کو تسلیم کیا ہے ۔ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیل این پی ٹی پر سائن کرنے کو اپنی قومی سالمیت کے معاملےسے مشروط کرتا ہے۔
تاریخی شواہد کے مطابق اسرائیل نے 1966 میں اپنا پہلا جوہری ہتھیار بنایا تھا۔ جبکہ ایک امریکی ڈی کلاسیفائیڈ حساس حکومتی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ 1975میں امریکی حکومت کو یقین ہوا تھا کی اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اس پالیسی پر سختی کے ساتھ کاربند ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں کسی دوسرے ملک کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔ اس کے لیے اسرائیل اپنے ہمسایہ ممالک کے جوہری پروگراموں میں مستقل مداخلت کرتا رہا ہے ، جسے وہ اپنی پیشگی حملے کی پالیسی یا بیگن ڈاکٹرائن کہتا ہے۔ مثلاً 7 جون 1981 کو اسرائیل نے عراقی ری ایکٹر اوسیراک پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا اور الزام یہ لگایا کہ اسے جوہری ہتھیاروں کے مقصد کے لیے بنایا گیا ہے ۔ سوائے زبانی بیانات کے کسی مسلمان ملک نے اسرائیل کے خلاف کو ئی ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی اقوام متحدہ نے۔ 2010میں اسٹکسنیٹ اور فلیم وائرسزکے ذریعے ایران کی نطنز میں واقع یورینیم افزودگی کی سہولت کو نشانہ بنایا اور ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کرایا۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ 2018 میں اسرائیل نے کھلے عام اعتراف کیا کہ اس کے طیاروں نے 6 ستمبر 2007 کو شام کے دیر الزور میں واقع الکبیر جوہری تنصیب پر بمباری کی تھی ۔
اسرائیل کی موجودہ دفاعی قوت
گلوبل فائرپاور انڈیکس کے مطابق اسرائیل دنیا کی پندرھویں بڑی ملٹری طاقت ہے ۔ امریکہ کی سی آئی اے کے بعد اسرائیل کی موساد کو دنیا کی بہترین انٹیلیجینس سروس سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ، اسرائیل کے پاس اس وقت تقریباً 90 پلاٹونیم پر مبنی جوہری وار ہیڈز ہیں جبکہ 100سے 200ہتھیاروں کے لیے پلوٹونیم تیار کرلی ہے۔مزید فوجی وسائل کے ضمن میں اس کے پاس 241 جنگی طیارے، 48 حملہ آور ہیلی کاپٹر، اور 2,200 ٹینک شامل ہیں۔ ان میں ایف 35طیارے بھی ہیں، جو دنیا کے بہترین الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز رکھتے ہیں ۔ یہ طیارہ بہتر صورتحال کا ادراک فراہم کرتا ہے ۔ اس وقت اسرائیل کے پاس 1,200 سے زائد توپ خانے بھی موجود ہیں، جن میں 300 ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹمز شامل ہیں ۔ اس میں ایسے اسمارٹ بم بھی ہیں جو کم سے کم اضافی نقصان کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اسرائیل کے پاس آئرن ڈوم نام کا ایک موبائل فضائی دفاعی نظام بھی ہے جو کہ اس کی فوجی طاقت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں 10 بیٹریاں ہوتی ہیں اور ہر بیٹری میں چار میزائل لانچر ہوتے ہیں۔ ایک بیٹری، جسے چند گھنٹوں میں نصب کیا جا سکتا ہے، 60 مربع کلومیٹر تک کے آباد علاقوں کو راکٹوں اور دیگر میزائل حملوں سے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسرائیل کا دفاعی بجٹ
اسرائیلی حکومت نے فروری 2022میں ایک کثیر سالہ دفاعی بجٹ کا اعلان کیا جو 2028 تک مؤثر رہے گا۔ اس رقم کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں، تاہم اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں اسرائیل نے دفاعی اخراجات پر 23.4 ارب ڈالر خرچ کیے۔ چائنا کی نیوز ایجنسی زنہوا نیٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے پچھلے ہفتے تقریباً چھ سو انیس بلین شیکل (169 بلین امریکی ڈالر) کا اپنا سالانہ بجٹ 2025پاس کیا۔موجودہ دفاعی بجٹ میں 110 بلین شیکل (تقریباً30بلین ڈالر)دفاعی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اسرائیل اپنی جی ڈی پی کا تقریباً ساڑھے پانچ فیصد دفاع پرخرچ کرتا ہے۔
اسرائیل کا شمار اسلحہ کے بڑے خریداروں میں ہو تا ہے ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ، امریکی مدد سے اسرائیل نے اپنی دفاعی صنعت کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ وہ اب دنیا کا نواں بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔چند ممالک جن سے وہ اسلحہ خریدتا ہے ان میں سرفہرست امریکہ ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور اسپین وغیرہ شامل ہیں۔ اسٹاک ہوم انٹرینشنل پیس ریسرچ انسیٹیوٹ کی رپورٹ ،جو کہ عالمی ہتھیاروں کی منتقلی پر مبنی ہے ، کے مطابق، 2023 میں اسرائیل نے 29فی صد ہتھیاروں کی درآمد امریکہ سے کی۔ دوسرے نمبر پر جرمنی رہا جس سے 30فی صد، اس کے بعد اٹلی جس سے 0.9فی صد کی۔اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے 2024 میں برطانیہ نے غزہ میں فوجی کارروائیوں کے لیے اسرائیل کو فوجی سامان کی برآمد کے تقریباً 30 لائسنس معطل کر دیے، یہ فیصلہ اسرائیل کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی تعمیل کے جائزے کے بعد کیا گیا ہے۔برطانیہ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات اسرائیل کی مجموعی برآمدات کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں، لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نے برطانیہ کے اس فیصلے کو "شرمناک" قرار دیا۔
امداد کی مد میں اسرائیل کو امریکہ سے ہر سال 3 ارب ڈالر ملتے ہیں۔ 2016 میں امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل کے ساتھ 10 سالہ 38 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، جس میں ہتھیار خریدنے کے لیے گرانٹس اور میزائلوں کے لیے 5 ارب ڈالر شامل ہیں۔اسرائیل نے پچھلے 20 سالوں میں امریکہ سے 58 ارب ڈالر کی فوجی امداد بھی حاصل کی ہے۔اسرائیل کو امریکہ سے تین طریقوں سے اسلحہ کی ترسیل کی جاتی ہے ۔ زیادہ تر ہتھیار اسرائیل امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے "فارن ملٹری سیلز پروگرام" کے تحت خریدتا ہے۔ جبکہ کچھ ہتھیار اسرائیل اپنے بجٹ کے ذریعے براہ راست تجارتی فروخت کے ذریعے خریدتا ہے ۔ تیسرا خفیہ طور پر یعنی غیر ظاہر شدہ مقدار میں ہتھیار بھی امریکہ کے فوجی ذخائر سے منتقل کیے جاتے ہیں، جسے "وار ریزرو اسٹاک الائیز-اسرائیل" کہا جاتا ہے ۔ یہ طریقہ سب سے زیادہ مبہم ہے کیونکہ ان ذخائر کی انوینٹری کا کوئی عوامی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اسرائیل کا قومی بیا نیہ یہ ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے ، چنانچہ اس کا دفاع اس کی سالمیت کا ضامن ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نہتے فلسطینی بھی اس کو دہشت گرد نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف بین الاقوامی قانون ، اخلاقیات، انسانی حقوق کی اسرائیل جس طرح دھجیاں بکھیر رہا ہے اس کے لیے تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ڈاکٹرمارٹن لوتھر کنگ جونیر نے صحیح کہا تھا:
" کہیں بھی ناانصافی ،ہر جگہ انصاف کے لیےخطرہ ہے۔"
(مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں)
تبصرہ لکھیے