ظلم کے خلاف جہاد کرنے کے لیے تلوار اور بندوق ضروری نہیں ہیں۔ کبھی کسی کم زور و ناتواں انسان کے دل سے بلند ہونے والی ایک للکار ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیتی ہے۔
گذشتہ کل کی بات ہے۔ مائیکروسوفٹ کمپنی کی پچاسویں سال گرہ تھی۔ واشنگٹن کے ایک عالی شان کانفرنس ہال میں یہ تقریب بڑی شان و شوکت سے منائی جارہی تھی۔ ایک سیشن میں جب کہ کمپنی کا مالک بل گیٹس بھی موجود تھا، مائیکروسوفٹ کے AI سیکشن کا سی ای او مصطفی سلیمان اسٹیج پر کھڑا بڑے طمطراق کے ساتھ یہ بتارہا تھا کہ AI سے انسانیت کو کتنا فیض پہنچ رہا ہے۔ اتنے میں ایک نوجوان لڑکی جرأت و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچ گئی۔ اس نے چیخ کر کہا: مصطفی تمھیں شرم آنی چاہیے، تم اور تمھاری کمپنی فلسطین میں پچاس ہزار معصوموں کے قتل میں شریک ہیں۔ اس کے بعد اس نے فلسطینی رومال (کوفیہ) اسٹیج پر اچھال دیا۔ اسٹیج کے پاسبان اسے باہر لے گئے لیکن وہ ظلم کے خلاف بلند آواز میں احتجاج کرتی رہی۔ اس بہادر لڑکی کا نام ابتہال ہے۔ اس کا تعلق مراکش سے ہے۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ ہے اور مائیکروسوفٹ کمپنی میں پروگرام انجینئر ہے۔ بتاتے ہیں کہ اس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار ڈالر ہے۔ جب کہ مصطفی سلیمان کا تعلق ملک شام سے ہے۔ ابتہال نے کہا مصطفی سرزمین شام میں تمھارا خاندان تمھاری اصلیت جان لے گا۔
ابتہال کے احتجاجی ویڈیو کو بار بار دیکھنا چاہیے۔
کتنا اعتماد ہے اس کے احتجاج میں! !
کتنی قوت ہے اس کے لفظ لفظ میں!!
کیسی پر اثر اس کی آواز ہے!!
کس تمکنت کے ساتھ اس نے ظالموں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ہے!!
ایک نازک لڑکی لمحوں میں کتنی طاقت ور ہوگئی!!
علامہ اقبال نے طرابلس کی فاطمہ کے بارے میں جو اشعار کہے تھے وہ مراکش کی ابتہال پر بھی صادق آتے ہیں:
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سِپَر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گُلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہُوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
مختلف رپورٹوں کے مطابق مائیکروسوفٹ کمپنی نے اسرائیلی فوج کو AI کی ٹکنالوجی دی ہوئی ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ بے گناہ شہریوں کو اندھا دھند بم باری کا نشانہ بناتی ہے۔
ابتہال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی تقریب کے ایک دوسرے سیشن میں ایک اور بہادر لڑکی نے بل گیٹس کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس لڑکی کا نام وانیا اگروال ہے اور تعلق ہندوستان سے ہے۔ کمپنی نے دونوں کے اکاؤنٹ بند کردیے ہیں جو اس بات کی اطلاع ہے کہ دونوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ابتہال اور وانیا اگروال دونوں کو اپنے اقدام پر ذرا بھی افسوس نہیں ہے۔ انھیں پورا اطمینان ہے کہ انھوں نے ضمیر کی آواز کو دبنے نہیں دیااور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کردیا۔ ابھی ان دونوں بچیوں نے کیریر کی شان دار ابتدا کی تھی۔ آگے کے لیے انھوں نے خوابوں کے نہ جانے کتنے حسین محل تعمیر کئے تھے۔ انھیں کم عمری میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میں بہترین ملازمت ملی تھی جو آج کے دور میں کسی بھی کمپیوٹر انجینئر کا سنہرا خواب ہوتی ہے۔ لیکن پھر انھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے مصنوعی خوشی کے سارے گھروندے توڑ ڈالے اور حقیقی خوشی کا وہ لمحہ پالیا، جو دنیا کے بڑے بڑے دولت مندوں اور حاکموںکو حاصل نہیں ہے۔
بے حسی کے اس دور میں جب کہ حرم کے اماموں کو ظلم کے خلاف اف تک کہنے کا یارا نہیں ہے کہ کہیں حاکم وقت ناراض نہ ہوجائے، جب کہ مسلمان حکم رانوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں کہ بچوں کی چیخیں انھیں پریشان نہ کریں، جب کہ دو ارب مسلمان اور آٹھ ارب انسان ظلم کا ننگا ناچ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، ایسے میں مراکش کی ابتہال اور ہندوستان کی وانیا اگروال نےاس اندھی بہری دنیا کو آئینہ بھی دکھایا ہے اور راستہ بھی سُجھایا ہے۔ آپ جائے ظلم سے بہت دور رہ کر پر امن طریقے سے تن تنہا بہت بڑا احتجاج کرسکتے ہیں اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے۔
آفریں ہوں تجھ پر مراکش کی بیٹی ابتہال اور ہندوستان کی بیٹی وانیا اگروال۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے وانیا اگروال کی صدائے احتجاج میں بڑا پیغام ہے۔ وہ ہندتو کی زہر افشانیوں سے اور گودی میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئی۔ اس نے اپنے زندہ ضمیر کی آواز سنی اور پھر اسے اس طرح بلند کیا کہ اس کی آواز پوری دنیا میں گونج اٹھی۔ آج میں اپنی کتاب ’’مسلم خواتین : ایکٹیوزم کی راہیں‘‘ کا انتساب ابتہال اور وانیا اگروال کی بہادری کے نام کرتا ہوں۔
تبصرہ لکھیے