اب ہم کیا کریں؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو اکثر نوجوانوں کے ذھنوں میں کل رات سے مسلسل گھوم رہا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے پاس فوری حل جیسی کوئی چیز نہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنی پوری زندگی کا رخ بدلنا پڑے گا۔
سب سے پہلے تو اپنی عملی کوتاہیوں پر نظر ثانی کریں۔ جس قدر مضبوط مسلمان انہوں نے شہید کیے ہیں۔ ہن عہد کریں کہ اتنے ہی پختہ مسلمان ہم بنیں گے۔ انہوں نے 50 ہزار شہید کیے ہیں تو ہم 50 لاکھ مسلمان تیار کریں گے۔
اسلام کی تبلیغ اس سے زیادہ شدت سے کریں گے جتنی شدت سے دشمن نے حملے کیے ہیں۔ یہ مصابرت ہے اس میں دشمن کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرنا ہوگا، دشمن مار مار کر تھک جائے ہم عزم برقرار رکھیں گے۔
اپنی علمی اور فکری بنیادوں کو قران، حدیث اور سیرت کے مطالعہ سے پختہ کریں گے۔ بنیادی علوم کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔ اسلامی تاریخ کی اہم شخصیات اور پڑاوں کو بار بار پڑھیں۔ صلاح الدین ایوبی کو پڑھیں۔ صاحب مطالعہ بنیں۔
دنیوی طور بہتر صلاحیتیں پیدا کر کے معاشرے میں با اثر فرد بنیں گے۔ دینی دنیوی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر فورم پر اس مقدمہ کو لڑیں گے۔
اچھا لکھنا سیکھیں ، اچھا بولنا سیکھیں، لکھتے رہیں گے، بولتے رہیں گے یہاں تک کہ امت اس عظیم سانحہ کو بھولنے نہ پائے۔ پھر چاہے وہ دوست ہوں، رشرمتہ دسر، آفس کلیگش ہوں یا سوشل میڈیا فرینڈز سب نے سامنے اسکی یاد دہانی کرواتے رہنا ہے۔
ایسے لوگوں سے جڑ جائیں اور انہیں اپنے ساتھ جوڑیئے جو دین سے اور کاز سے مخلص ہیں۔ اور اس متعلق ایک دوسرے کی صحیح رہنمائی کرتے رہیے۔
کوشش کریں گی عربی اور انگریزی زبان پر مہارت حاصل کریں تاکہ اس قضیہ کی ترجمانی عالم اسلام اور باقی دنیا کے سامنے بھی موثر انداز میں کرسکے۔
ایسے کانٹنٹ کریئٹرز تیار کریں گے جو حقائق کی بہتر ترجمانی اور پیشکش کرسکیں۔ یہ کانٹ جاندار ہے اس میں ہمیں دھروو راٹھی جیسے کانٹ کریٹیئرز کہ سخت ضرورت کے۔ اور عما عوام اور غیروں کی ذھن ساذر کریں گے۔ شبہات دور کریں گے۔
سالوں کا ویژن رکھیں گے اگر خود نوجوان ہیں تو اپنے آپ کو تیار کریں، اگر صاحب اولاد ہیں تو اولاد کی تربیت اس انداز میں کرسکیں کہ انہیں با اثر فرد کے طور پر بڑا کریں۔ اپنی اپنی فیلڈ میں ماہر ترین بنیں۔ جس قدر با اثر ہمارے پاس ہوں گے اتنی ہی دور تک اور دیر تیک ہم اس نظریے کو پہنچا سکیں گے یہ مقدمہ لڑ سکیں گے۔ حدیث میں آتا ہے طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر ہے۔ طاقتور مومن بنیں۔
فرقہ وارانہ تعصب کو چھوڑ کر مسلسل سمت مسلمہ کے متفقہ مسائل کے حل کی کوششیں کریں گے، اندرونی منافقین کو ایکسپوز کریں گے، انکے شبہات کا علمی رد کریں گے۔
اس کے علاوہ جتنی مالی امداد ہوسکے گی اسکو یقینی بنائیں گے۔ مصنوعات کا بائکاٹ جاری رکھیں۔
حکمران طبقے کو پریشر میں ڈالنے کے لیے لمبی پلاننگ کریں گے تاکہ وہ اپنے وسائل سے مداخلت کریں۔
مسلسل بزدلی، نفاق، مایوسی اور میدان چھوڑ کر بھاگنے جیسے امراض سے اللہ کہ پناہ مانگتے رہے۔ صبر و استقامت کا سولا کرتے رہے۔
آپ آج سے اپنی زندگی کا رخ بدلیں گے تو سالوں میں جاکر کچھ تبدیلی آئے گی، دو دن کے احتجاج اور تین کے سوگ سے کچھ نہیں ہوگا۔ جیسے لوگ اپنی ذاتی جائیداد نکلوانے کے لیے پوری زندگی لگادیتے ہیں۔ اپنے آپ کو وقف کردیں کہ سب سے جو بھی قدم اٹھے گا وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اٹھے گا۔ یقینا اللہ تعالی ایسی ایک جماعت ضرور تیار کردیں گے جو نہ صرف غزہ کا احیاء کریں گے بلکہ تمام عالم میں ثوحید کا جھنڈا لہرائیں گے۔
اور سب سے اہم چیز اپنے رب سے مناجات جاری رکھیں، وہ آپ کی کمزوری جانتا ہے اور دشمن کی طاقت بھی اس سے مسلسل سوال کریں، التجائیں کریں وہی رہنمائی کرنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے۔
تبصرہ لکھیے