ہوم << 70 واں یوم آزادی اور آج کا پاکستان - عمران ظہور غازی

70 واں یوم آزادی اور آج کا پاکستان - عمران ظہور غازی

عمران ظہور غازی مسلمانان ہند کی تاریخ میں 14اگست 1947ء خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن ان کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی جس کے لیے وہ برسوں سے کوشاں تھے اور جس کی ناکامی کی صورت میں انھیں مزید کئی صدیوں کےلیے غلامی میں جانا پڑسکتا تھا. قیام پاکستان کی تحریک اس عظیم مقصد کے پیش نظر چلائی گئی تھی کہ وہ ایک آزاد خطے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کریں کر سکیں۔
جنگ عظیم دوم کے بعد برصغیر سے انگریز کے جانے کا سامان ہوا تو مسلمانوں نے جان لیا کہ اب معاملہ ہندو اکثریت سے ہوگا جس کی تنگدلی اور مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہندو غلبے کے ساتھ مسلمان اپنے عقیدے اور ایمان کے مطابق زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ انہیں اقلیت کی صورت میں ہندو کا محکوم بن کر رہنا پڑے گا۔ دونوں قومیں اپنے عقیدے اور نظریے کے اعتبار سے الگ نظریات رکھنے والی قومیں ہیں، ان کامل جل کر رہنا مشکل ہوگا۔ چنانچہ ضروری تھا کہ ایک الگ ملک کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ مسلمان اپنے نظریے، عقیدے اور ایمان کے مطابق آزاد وطن میں زندگی گزار سکیں۔ یہ جدوجہد قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔
نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والا یہ ملک پاکستان اللہ کی نعمت ہے، جس میں اچھا موسم اور پانی اور زرخیز زمینیں ہیں۔ جہاں تمام پھل اور فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ جس میں جنگلات، پہاڑ، معدنیات، دریا اور سمندر پائے جاتے ہیں۔ اب یہ یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے کہ وہ ان نعمتوں سے خود فیض پائیں اور دوسروں کو بھی نفع پہنچائیں۔
آج جبکہ قوم 70واں یومِ آزادی منا رہی ہے۔ جس جذبے سے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی گئی، اور جن مقاصد کےلیے یہ خطۂ زمین حاصل کیا گیا تھا، وہ ہنوز تشنہ تکمیل اور منتظر توجہ ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بانی پاکستان قائداعظم دنیا سے رخصت ہوگئے، اور عنان حکومت و اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئی جن کو قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو دین اسلام اور شریعت اسلامی کے نفاذ سے بتدریج دور کیاگیا۔ قوم کو قوم بنانے کے بجائے ہجوم میں تبدیل کردیا گیا، مفاد پرست طبقے نے مفادات سمیٹے، اور قوت واختیار پر ایسے شکنجہ کساگیا کہ بدعنوانی، ناانصافی، ظلم ، بددیانتی وبداخلاقی، بے حیائی، فحاشی و عریانی، رشوت وسمگلنگ اور وطن فروشی اور ذاتی مفاد فروغ پاتے گئے اور عوام الناس کو مجبور محض بنا دیاگیا. جس آزادی کے خواب انہوں نے دیکھے تھے وہ حاصل نہ ہوئی۔ مایوسی، بے حسی اور بے کسی کی کیفیت نے قوم کو پژمردہ اور رہزنوں کے سپردکردیااور بقول شاعر: آزادی عوام نصیبوں جلی رہی. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستان کے مقاصد کو فراموش نہ کیا جاتا۔ اس ملک کو دین اسلام کا گہوارہ بنایا جاتا، اور دنیا کے سامنے شہادت حق کی گواہی پیش کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں اور قوم کی بداعمالیوں کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً آفات ارضی و سماوی کے ذریعے متوجہ کرنے اور توبہ کا راستہ دکھایا۔ لیکن کسی بڑی مشکل اور پریشانی سے دوچارنہیں کیا۔ ضرورت ہے کہ بحیثیت مجموعی قوم بالعموم اور برسراقتدار طبقہ بالخصوص اپنے گذشتہ اعمال پر سرعام اجتماعی ندامت کا اظہار کرے، کھلم کھُلا اجتماعی توبہ کا راستہ اختیار کرے اور پاکستان کو اسلامی نظریاتی اور فلاحی ملک بنائے اور تمام عالم کے سامنے شہادت حق کا فریضہ ادا کرے، کہ یہی اس ملک کی بقا، سلامتی اور ترقی کا راستہ ہے.
خُدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

Comments

Click here to post a comment