بھارت میں ایک نیا متنازعہ قانون “وقف (ترمیمی) بل 2024” کل پاس کیا گیا ہے جس پہ بھارت کے مسلمانوں میں شدید اضطراب، بے چینی اور غصہ پایا جاتا ہے.
پہلے اس کا پس منظر دیکھتے ہیں؛
بھارت کی لوک سبھا (پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں) نے 2 اپریل 2025 کو وقف (ترمیمی) بل 2024 منظور کیا، جو وقف ایکٹ 1995 میں کئی بنیادی تبدیلیاں کرتا ہے۔ یہ قانون وقف املاک کی نگرانی اور ان کے انتظامات سے متعلق ہے، جو کہ اسلامی مقاصد کے لیے وقف کی گئی جائیدادوں پر لاگو ہوتا ہے۔
اہم ترامیم:
غیر مسلم ارکان کی شمولیت
نئے بل کے تحت مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ارکان کی شمولیت لازمی ہوگی۔ اس سے پہلے یہ ادارے مکمل طور پر مسلم نمائندوں پر مشتمل ہوتے تھے۔
وقف کے قیام کے لیے نئی شرائط؛
صرف وہ شخص وقف کرسکے گا جو کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو۔ “وقف بذریعہ قدیم استعمال” (یعنی وہ جائیدادیں جو عوامی طور پر طویل عرصے سے مذہبی استعمال میں ہوں) کو ختم کر دیا گیا ہے، یعنی کوئی جگہ، جو صدیوں سے مسجد، درگاہ، یا قبرستان کے طور پر استعمال ہو رہی ہو، اب اسے وقف جائیداد قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وقف املاک کی شناخت اور سروے؛
پہلے وقف املاک کی شناخت کا اختیار سروے کمشنر کے پاس تھا، مگر اب یہ ڈسٹرکٹ کلیکٹر یعنی تحصیلدار کو منتقل کر دیا گیا ہے، جو سرکاری ملازم ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی سرکاری زمین جو پہلے وقف املاک کے طور پر درج تھی، اب وقف تصور نہیں کی جائے گی، بلکہ کلیکٹر فیصلہ کرے گا کہ وہ زمین کس کی ملکیت ہے.
وقف ٹریبیونلز میں تبدیلیاں؛
پہلے وقف تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک مسلم قانون کے ماہر کی ضرورت تھی، لیکن اب اس شرط کو ختم کر دیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت کی دلیل؛
بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل سے شفافیت بڑھے گی، بدعنوانی ختم ہوگی، اور وقف کے معاملات میں دیگر طبقات کی شمولیت سے توازن قائم ہوگا۔ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل صرف انتظامی معاملات میں بہتری کے لیے لایا گیا ہے اور اس کا مقصد مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔
تنقیدی تجزیہ:
دیکھیں! وقف کا نظام خالصتاً ایک اسلامی نظام ہے، جس میں جائیدادوں کو اللہ کی رضا کے لیے اسلامی مقاصد کے تحت وقف کیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کی شمولیت ایک کھلی مداخلت ہے، جو کہ مسلمانوں کے اندرونی معاملات میں ہندو اسٹیبلشمنٹ کے تسلط کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسلمان ہندو مندروں کے ٹرسٹ بورڈز میں زبردستی شامل ہو کر ان کے معاملات پر اثر انداز ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر مندروں، گردواروں اور چرچز کے ٹرسٹ میں غیر ہندو یا غیر سکھ کو شامل نہیں کیا جا سکتا، تو مسلم وقف بورڈز میں غیر مسلموں کی مداخلت کیوں؟
“وقف بذریعہ قدیم استعمال” یا Waqf by use کا خاتمہ:
مساجد اور درگاہوں پر قبضے کی راہ ہموار کرنے کیلئے ایک گھناؤنی سازش ہے. تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی زمینیں اور جائیدادیں صدیوں سے دینی مقاصد کے لیے وقف کی ہیں، اور ہزاروں درگاہیں، مساجد، اور مدارس ایسے ہیں جو باضابطہ رجسٹریشن کے بغیر ہی صاحبِ حیثیت لوگوں نے وقف کر دی تھیں۔ اب “Waqf by use” کے تصور کو ختم کرکے ہندو انتہاپسند حکومت ان تمام جائیدادوں کو ہتھیانے کی کوشش کر رہی ہے، جو صدیوں سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ قانون بالخصوص تاریخی مساجد، درگاہوں، اور اسلامی قبرستانوں کو ختم کرنے کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔
قبل ازیں وقف املاک کی نگرانی اور ان کی فہرست بندی ایک آزاد سروے کمشنر کرتا تھا، جو کہ نسبتاََ غیر جانبدار ہوتا تھا۔ مگر اب یہ اختیار ڈسٹرکٹ کلیکٹر یعنی تحصیلدار کے پاس ہوگا، جو کہ ہندو راج کے وفادار سرکاری افسر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اپنی املاک پر کوئی دسترس باقی نہیں رہے گی۔ ہندو انتہاپسند حکومت جب چاہے مساجد، درگاہیں، مدارس، اور اسلامی وقف جائیدادوں کو “سرکاری زمین” قرار دے کر انہیں ہندو مندر میں بدل سکتی ہے یا ہندو کاروباری اداروں کو دے سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت ایک اہم ترمیم یہ کی گئی ہے کہ وقف ٹریبیونل میں ماہرِ مسلم قانون کی شرط کا خاتمہ کر دیا گیا ہے. وقف قوانین شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق بنتے ہیں۔ جب کوئی تنازعہ ہو، تو ایک ماہرِ اسلامی قانون ہی بہتر فیصلہ کر سکتا ہے، مگر حکومت نے اس شرط کو ہٹا دیا ہے تاکہ ہندو جج وقف معاملات پر فیصلے صادر کر سکیں۔ یہ ایک کھلا دھوکہ ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرنا ہے۔
لہذا یہ وقف ترمیمی بل بی جے پی کی مسلم دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جو بابری مسجد شہید کر چکی ہے، گیان واپی مسجد کو نشانہ بنا رہی ہے، مدارس اور اسلامی اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے، مسلم وقف املاک پر قبضہ جمانا چاہتی ہے. یہ تمام اقدامات اس ہندو انتہاپسند ذہنیت کا حصہ ہیں، جو مسلمانوں کو بھارت میں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عدالتوں میں، سڑکوں پہ اور سوشل میڈیا پہ اس بل کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ ہندو راج کے ظالمانہ قوانین کو بے نقاب کیا جا سکے۔ اگر آج اس قانون کے خلاف جدوجہد نہ کی گئی، تو کل ہزاروں مساجد، درگاہیں، اور اسلامی ادارے ہندو شدت پسندوں کے قبضے میں چلے جائیں گے۔



تبصرہ لکھیے