ہوم << وقف ترمیمی بل، کرنے کے کام - ابو سعد چارولیہ

وقف ترمیمی بل، کرنے کے کام - ابو سعد چارولیہ

کہتے ہیں کہ آگے چلنے کے لیے پیچھے دیکھنا چاہیے، تاکہ پیچھے لگنے والی ٹھوکروں اور حاصل ہونے والی کامیابیوں دونوں کو سامنے رکھ کر سفر طے کیا جاسکے ۔

بانوے میں بابری مسجد کی شہادت کے معا بعد مسلم قوم نے بلا تفریقِ مسلک جس طرح غیرت و حمیت، زندگی اور زندہ دلی کا ثبوت دیا تھا اس کو یاد کرنا اور رکھنا چاہیے، گو اس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں، املاک نذرِ آتش ہوئیں، مکانات ڈھائے گئے اور ناقابلِ تلافی جانی مالی نقصانات ہوئے مگر پیغام یہ گیا کہ قوم زندہ ہے اور اپنے شعائر کی حفاظت کرنا جانتی ہے، اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ بانوے سے بائیس تک مکمل تیس سال کسی عبادت گاہ تک غلط ہاتھ نہیں پہنچ سکے تھے، اس دوران دیگر حوادث و سانحات کے ذریعے ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی غیرت و حمیت کا امتحان لیا جاتا رہا اور افسوس ہے کہ ملت اجتماعی طور پر اس امتحان میں ناکام ہوتی رہی، منصوبہ بند موب لنچنگ، لو جہاد سے لے کر تھوک جہاد تک مختلف ناموں سے دوسرے درجے کا شہری بنانے اور بتانے کی کوشش،شانِ رسالتمیں گستاخی کے واقعات، بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر، تین طلاق، مختلف ریاستوں میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور اس کی گونج وغیرہ معاملات میں قوم نے جس بے حسی اور قیادت نے جس مردہ دلی کا ثبوت دیا وقف ترمیمی بل ۲۰۲۵ اس کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے، بالخصوص ٹرپل طلاق اور بابری مسجد کے فیصلے کے موقع سے ”عدالت پر ایمان لانے اور قانون کے دائرے میں رہنے کی ”جس قدر اور جتنی تلقین کی گئی اس نے نہ صرف مخالفین کا حوصلہ بلند کیا بلکہ قوم کا مورال پست کیا، دونوں مواقع سے عدالت کے ظلم اور پارلیمنٹ کے ستم کو جس بزدلی کے ساتھ ملت نے برداشت کیا اس نے اپنوں کو چھوڑیے غیروں کو بھی انگشت بدنداں کردیا، ضرورت ہے پلٹ کر بانوے میں جانے کی اور وہاں سے حمیت و غیرت کا ایندھن لے کر دوبارہ نیا سفر شروع کرنے کی ۔ ع
اُن ہی ماضی کی راہوں پر پلٹ جانے کا وقت آیا

این آر سی کے” شاہین باغات” کا استثنا ضرور کیجیے کہ ملت کی نوجوان نسل نے اُس موقع سے جس حمیت کا ثبوت دیا تھا اس نے دشمن کو سوچنے، تہہ تک پہنچنے اور پھر پلٹ کر بھرپور کارروائی کرنے پر مجبور کردیا، افسوس کہ قوم نے جیل میں بغیر ٹرائل کے سڑ رہے اُن جیالوں کو ایسا بُھلا رکھا ہے کہ آج ” سَنکَٹ سَمے ”(ضرورت کے وقت)بھی ان کی یاد نہیں آرہی ہے۔اللہ تعالی جلد از جلد بعافیت اُس عزم و حزم والی قیادت و سیادت کی با عزت رہائی کے فیصلے فرمائے، آمین!

آئیے! اب بات کرتے ہیں کہ کرنے کے کام کیا ہیں

❶ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ نوجوان نسل اور نام نہاد مفکرین اوقاف میں ہونے والی خرد برد پر بات کرنا بند کریں کہ یہ وقت اِس کا نہیں ہے، اس پر بحث کرنا گویا دشمن کے پالے میں گیند ڈالنا اور وہ جیسے نچوانا چاہتا ہے ویسے ناچنا ہے، کون نہیں جانتا کہ اوقاف پر لوٹ مار کا سلسلہ مدتوں سے جاری تھا، اپنوں اور غیروں سبھی نے مل کر اسے لوٹا ہے مگر یہ وقت اس مدعے کو اٹھاکر قوم کو مجرم بتانے اور دشمن کو محسن جتانے کا نہیں، برائے مہربانی! اس مدعے کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے ۔

❷ دوسرا کرنے کا کام یہ ہے کہ قیادت کو کوسنے کے بجائے ان کے ہاتھ مضبوط کریں، طنز کرنے کے بجائے ان کے شانہ بہ شانہ چلنے کا عزم کریں، قیادت اِس وقت بیدار، ہوشیار اور مقابلہ کرنے کے لیے پُر عزم ہے اسے کام کرنے کا موقع دیں، گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے جاں بہ لب لاشے میں روح پھونکیں اور اس کے اشارۂ چشم و ابرو کے منتظر رہیں ۔

❸ قیادت کی خدمت میں بھی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ ملک گیر احتجاجی تحریک قانون کے دائرے میں ہی ہوگی اور پُر امن ہوگی ان شاء اللہ! مگر اب اس ”امن اور قانون ”کی رَٹ کو چھوڑ دیں، عدالتی فیصلوں پر ”آمنا و صدقنا ”کے بجائے ”سمعنا و عصینا ” کا پیغام دیں، قانون ہی ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اگر عدالتی فیصلوں، اسمبلی تجویزوں اور پارلیمنٹی بِلوں پر مطمئن نہ ہوں تو اس کا معقول اظہار اور اس پر مؤثر احتجاج کریں ۔

❹ دونوں ایوانوں سے بِل پاس ہونے کے بعد بھی عوام نہیں خواص تک اوقاف کی معلومات اور موجودہ بل کے نقصانات سے ناواقف ہیں اور حکومتی وزراء کے بیانات سے گمراہ ہورہے ہیں، ضرورت ہے کہ اس تعلق سے ہم بیداری کی مہم چلائیں، احتجاج میں شریک ہونے والی بھیڑ کو اس کے مقصد سے آگاہ کریں، ان کی ہمت بلند کریں، مایوسی نہ پھیلائیں، آمرانہ حکومت و ظالمانہ اقتدار یہ بل واپس لیں نہ لیں منظم و موثر احتجاج کے دیر پا اثرات ہوں گے، آتشِ نمرود کو بجھانے کے لیے چڑیا کے مانند چونچ میں پانی بھرکر اپنا کردار ادا کریں، اوقاف و شعائر کو بچانے کے لیے آہنی دیوار نہ سہی عنکبوت کے تار تو بُنیں ۔

❺ جن پارٹیوں نے اس موقع سے ملت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے انہیں یادگار سبق سکھائیں، لوکل میونسپل الیکشن سے لے کر صوبائی و ملکی الیکشن تک ہر جگہ ان کا بائیکاٹ کریں، ان کا ساتھ دینے والی مذہبی و سیاسی کالی بِھڑوں کو باہر نکال پھینکیں۔

❻ آئندہ سیاسی پارٹیوں کا غلام بننے اور غیروں کی جھولی میں بھر بھر کر ووٹ دینے سے توبہ کریں، سوچ سمجھ کر اشخاص اور پارٹیوں کا انتخاب کریں، جن کو ہم تھوک کے بھاؤ اپنے ووٹ دیتے ہیں وہ بل تو روک سکتے نہیں، تو کیوں نہ ہم اپنوں کو منتخب کریں، کسی مسلم پارٹی سے اتفاق نہ ہوتو آزاد لیڈر منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجیں، ہم جانتے ہیں کہ اس ملک میں مسلم سیاسی پارٹی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا مگر ہم اپنی ناراضگی کے اظہار کے لیے ان سیکولر پارٹیوں کو ایک مدت تک ٹرپل طلاق دے کر دیکھیں، اس سے ان پارٹیوں کو ہوش بھی آئے گا اور جوش بھی، وہ ہمارے ووٹوں پر منحصر رہنے کے بجائے اپنی برادری اور قوم میں محنت کرکے اپنی قوت بڑھاسکیں گے ، گویا یہ طلاق بھی ان ہی کا حسن بڑھانے کے لیے ہے ۔

❼ ان سب کے ساتھ استغفار، رجوع الی اللہ اور دعاؤں کا خوب اہتمام کریں کہ سب کی رسی اُن ہی کے ہاتھ میں ہے،سوشل میڈیا کے اُن نام نہاد مفکروں کی باتوں پر کان نہ دھریں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہوتا، سوچنے کی بات یہ ہے اکابر کی ان اپیلوں پر کان دھر کر کتنے لوگ کتنی دعائیں کرتے ہیں ہر شخص کو اپنی انفرادی زمدگی میں غور کرلینا چاہیے ۔