دنیا کی ہر قوم اپنے ہیرو کو ’’پوجتی‘‘ ہے۔ جس قوم کے پاس ہیرو نہ ہو اس قوم کا کوئی فلاسفر کسی فرضی ہیرو کو خیالوں کی دنیا میں پیدا کر کے اپنی قوم کو اس سے مانوس کر کے اس جیسا بننے پر تیار کر لیتا ہے، جیسے نیٹشے کا فلسفہ فوق البشر۔ برصغیر کے مسلمانوں کے پاس بیسویں صدی میں ایک ایسا نابغہ روزگار ہیرو آیا جسے دنیا علامہ اقبال کے نام سے جانتی ہے۔ اس ہیرو نے اس وقت ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ملک کے بن جانے کی نوید سنائی جب آزادی تو کجا، مسلمانوں کو پرامن طریقے سے نماز عید پڑھنے کے لیے بھی جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی تھی۔ معجزہ رونما ہوا، پاکستان بن گیا اور پھر ہم نے دنیا کی قوموں کی طرح اپنے ہیرو کی عزت و تکریم کی نہ اس جیسا بننے کی کوشش کی۔ چنانچہ علامہ اقبال اپنے ہی ملک اور اپنی ہی قوم میں جس برے انداز میں نظرانداز ہوئے اس کی مثال تاریخِ انسانی میں محض ایک جگہ ملتی ہے اور وہ ہے علاوالدین خوازمی کی۔
ہمارے مکمل تعلیمی نظام میں انگریزی ابتدائی جماعتوں سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے درجے تک پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے، بطور ایک استاد مجھے ابھی تک اقبال کی انگریزی کتاب’’The reconstruction of religios thoughts in Islam‘‘ نہ تو نصابی حوالے سے پڑھنے کا موقع ملا ہے اور نہ پڑھانے کا۔ ایم فِل اقبالیات کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایک مکمل ڈگری کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جس کے سکالرز اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوری قوم کے لیے اقبال کا لٹریچر پڑھنا محض ایک ’’لاہونی حسرت‘‘ ہے۔ اب جب کہ پوری قوم کا ننانوی فیصد ’’جھرمٹ‘‘ اقبال کو محض ایک دیومالائی اور طلسمی شاعر کی حیثیت سے ہی جانتا ہے، تو پھر اقبال کے مخالفین کو موقع مل گیا ہے اور وہ جو چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں، جس انداز میں چاہتے ہیں، اقبال پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔ سامنے سے مزاحمت کون کرے گا؟ کوئی ہوگا تو کرے گا ناں۔پوری مملکت اور مملکت کے جمہوریت پسند حکمران اب تو اقبال کے احسانوں کو اس انداز میں فراموش کر چکے ہیں کہ اس مظلوم مصلح کے یومِ پیدائش پر چھٹی منانا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ہاں کسی حکمران کی کسی ’’گڑھی‘‘ میں ووٹوں کے لیے مانگی جانے والی بھیک کو چھٹی کی وجہ باآسانی بنایا جا سکتا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں قومی اور ملی رہنمائوں کے عزت و ناموس پر کیچڑ اچھالنے والوں کو غیرت مند اقوام پکڑ کر نہ صرف جیلوں میں پھینکتی ہیں بلکہ انہیں بھاری اور سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال برطانیہ میں ملکہ برطانیہ کے خلاف گفتگو کرنے پر ایسے گستاخ کو بغاوت کے الزام میں دھر لینا ہے، جبکہ یہاں ہر دوسرا سیکولر دانشور اور تیسرا تجزیہ نگار علامہ اقبال کے خلاف چیرہ دستیوں اور ہرزہ سرائیوں میں مصروف نظر آتا ہے، اقبال کو ٹی وی پروگراموں اور اخباروں کے کالموں سے لے کر نجی محفلوں تک میں انتہائی نازیبا انداز میں ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور اس کے دفاع میں ایک لفظ تک نہیں ہوتا۔ ہوبھی کیسے؟کوئی اقبال کو پڑھے گا تو جواب دے گا ناں۔جواب علم اور منطق سے دیے جاتے ہیں، صرف عقیدتوں کے بل بوتے پر عقائد کا تحفظ نہیں ہوتا۔
تجویز ہے کہ ابتدائی جماعتوں سے گریجویشن تک اقبالیات کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے. ظاہر ہے اس تجویز پر بھی لوگ ہنسیں گے، اس لیے نہیں کہ اقبال کا لٹریچر پڑھایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس لیے کہ اقبال پڑھانے والے نہیں ملیں گے۔ ماہرین اقبالیات بھی تو اس کے دفاع میں خاموش ہیں اور سچ پوچھیں تو ان کے پاس بھی اقبالیات کی ترویج و تعلیم کے لیے تا حال کوئی عملی منصوبہ سامنے نہیں۔ برکت کے لیے دو نظمیں ہر جماعت کی اردو میں شامل کی گئی ہیں اور بس۔ محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ جس کو اقبال کے نام پر تنخواہ ملتی ہے، وہ کھائے جا رہا ہے، جسے نہیں ملتی وہ اقبال کا حریف بن کر سستی شہرت حاصل کر کے دانشور بن جاتا ہے۔ میرا جیسا مہاتر سائیں ان ہر دو شخصیات کو دیکھ کر کڑھتا ہے، لیکن کچھ کر نہیں سکتا۔ آخر میں بھی تو اسی احسان فراموش قوم کا فرد ہوں۔
تبصرہ لکھیے