ہوم << وقف قانون کی آڑ میں مسلمانوں کا استحصال - عبدالجبار سلہری

وقف قانون کی آڑ میں مسلمانوں کا استحصال - عبدالجبار سلہری

بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، حالیہ برسوں میں ایسے متعدد اقدامات کرتا آ رہا ہے جنہوں نے اس دعوے کو عالمی سطح پر مشکوک بنا دیا ہے۔ مذہبی اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان، ان پالیسیوں اور قوانین کی زد میں ہیں جو بظاہر اصلاحات کے نام پر لائے جا رہے ہیں، مگر درحقیقت ان کی جڑ میں تعصب اور اقلیت دشمنی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے "وقف (ترمیمی) بل 2025" جسے بھارتی پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔ یہ قانون بظاہر وقف جائیدادوں کے انتظام و انصرام میں شفافیت لانے کے لیے پیش کیا گیا ہے، مگر حقیقت میں اس کے اثرات اور شقیں ایسی ہیں جو براہ راست مسلم کمیونٹی کے مفادات، مذہبی خودمختاری اور بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں۔

وقف ترمیمی بل 2025 میں درج ذیل نکات کو قانونی حیثیت دی گئی ہے:
وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت،وقف جائیداد کی ملکیت کے تعین کا اختیار ضلعی کلکٹر کو دینا،وقف بورڈ کی خودمختاری میں مداخلت،تمام وقف جائیدادوں کی مرکز کے تحت رجسٹریشن،آڈٹ اور آمدنی کی حد مقرر کرنے کی تجویز،بورڈ میں خواتین کی نمائندگی لازم قرار دینا،یہ تمام نکات بظاہر اصلاحات کا رنگ لیے ہوئے ہیں، لیکن جب ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے،پیچھے چھپے نقصانات واضح ہو جاتے ہیں۔

وقف ایک اسلامی مذہبی نظام ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص اپنی جائیداد کو اللہ کے نام پر دائمی طور پر کسی نیک مقصد کے لیے وقف کرتا ہے۔ اس کا انتظام شریعت کے اصولوں کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ جب وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کو شامل کیا جائے گا تو وہ نہ شریعت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی مذہبی احکام کا ادراک رکھتے ہیں۔ اس سے وقف کے اصل مقاصد میں تحریف کا خدشہ ہے۔

جائیداد کی ملکیت کا تعین وقف بورڈ کے بجائے ضلعی کلکٹر کرے گا، جو براہِ راست حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ یہ شق ریاست کو قانونی جواز دے دیتی ہے کہ وہ کسی بھی وقف جائیداد کو "غیر وقف" قرار دے کر اپنی تحویل میں لے لے، جیسا کہ کئی ریاستوں میں پہلے ہی دیکھا جا چکا ہے (مثلاً مہاراشٹرا، کرناٹک اور دہلی میں کئی مساجد اور قبرستانوں کی زمینیں سرکاری منصوبوں کے تحت لی جا چکی ہیں)۔

مسلم وقف جائیدادوں میں ہزاروں مساجد، مدارس، لنگر خانے، یتیم خانے اور قبرستان شامل ہیں۔ اگر ان کا کنٹرول حکومت یا غیر شرعی قوتوں کو دے دیا جائے تو ان کی مذہبی حیثیت متنازع بن سکتی ہے۔ مثلاً کوئی مسجد جو وقف زمین پر قائم ہے، اگر اسے "غیر وقف" قرار دیا گیا تو اس کا انہدام یا استعمال کی تبدیلی آسان ہو جائے گی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے یہ قانون لا رہی ہے، مگر اصل میں اس سے وقف جائیدادوں کی مالیات اور انتظامی اختیارات پر سیاسی کنٹرول حاصل کیا جا رہا ہے۔ پہلے ہی کئی ریاستوں میں وقف بورڈ سیاسی مداخلت کا شکار ہیں۔ اب مرکزی سطح پر اس کا مکمل کنٹرول اقلیتوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔

بھارتی آئین اقلیتوں کو مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی آزادی دیتا ہے۔ آرٹیکل 26 کے تحت ہر مذہب کو اپنی عبادت گاہوں اور املاک کے انتظام کا حق حاصل ہے۔ مگر یہ بل دراصل ان آئینی حقوق کو کمزور کرتا ہے، جو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے اعتماد کو شدید مجروح کرے گا۔ وقف بورڈ ایک نیم عدالتی ادارہ ہے جو وقف املاک کے تنازعات کا حل مہیا کرتا ہے۔ مگر اس بل کے تحت ضلعی کلکٹر کا فیصلہ حتمی مانا جا سکتا ہے، جس سے قانونی چارہ جوئی کا دروازہ بند ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے متاثرین کو انصاف حاصل کرنے میں دشواری ہوگی۔

یہ بل بی جے پی کے "ہندوتوا" ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس کے تحت ملک کو ایک ہندو راشٹرا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وقف املاک کی ضبطی، مسلم پرسنل لا میں مداخلت، اور مدارس کی نگرانی جیسے اقدامات اسی ایجنڈے کے تحت اٹھائے گئے ہیں۔ بیشتر مدارس، اسکولز، اسپتال، لائبریریاں اور یتیم خانے وقف کی مدد سے چلتے ہیں۔ اگر وقف املاک پر قبضہ یا کنٹرول سخت کر دیا گیا تو ان اداروں کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس سے تعلیم، صحت اور فلاحی خدمات متاثر ہوں گی جو کمزور طبقے کے لیے بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

جب ایک مخصوص مذہب کی عبادت گاہیں، املاک یا ادارے حکومتی مداخلت کا شکار ہوں گے تو لازمی طور پر مذہبی تناؤ بڑھے گا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا اور فرقہ وارانہ تصادم کے خدشات بڑھیں گے۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بھارت کو پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ اگر وقف بل جیسے قوانین مسلسل نافذ ہوتے رہے تو اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر عالمی ادارے بھارت کو اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے والا ملک قرار دے سکتے ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون شفافیت کے لیے ہے،خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ہے،بدعنوانی روکنے کے لیے ہے. مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان مقاصد کے لیے مذہبی اداروں کی خودمختاری قربان کی جا سکتی ہے؟ اگر واقعی شفافیت ہی مطلوب ہے تو دیگر مذاہب کے اداروں (جیسے مندر بورڈز، گردوارہ بورڈز) پر بھی اسی طرز کے قوانین کیوں لاگو نہیں کیے جا رہے؟

وقف (ترمیمی) بل 2025 ایک تکنیکی قانونی مسودہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور مذہبی چیلنج ہے، جس کا سامنا بھارت کی مسلم اقلیت کو ہے۔ یہ بل اصلاحات کی آڑ میں مذہبی آزادی، خودمختاری، اور تاریخی املاک پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ اگر آج اس قانون کو چیلنج نہ کیا گیا، تو کل مساجد کے بعد مدارس، پھر پرسنل لا، اور آخرکار پوری مذہبی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور خود بھارت کے سیکولر عوام اس قانون کی حقیقت کو پہچانیں اور اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جب اقلیتوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں، تو اس کے اثرات پوری قوم پر پڑتے ہیں۔